صحرائے تھر
صحرائے تھر پاکستان کی جنوب مشرقی اور بھارت کی شمال مغربی سرحد پر واقع ہے۔ اس کا رقبہ 200,000 مربع کلومیٹر يا 77,000 مربع ميل ہے[2]- اس كا شمار دنيا کے نويں بڑے صحرا کے طور پر کیا جاتا ہے[3]-
صحرائے تھر | |
---|---|
نقشہ |
|
انتظامی تقسیم | |
ملک | بھارت پاکستان [1] |
تقسیم اعلیٰ | راجستھان ، ہریانہ ، پنجاب ، گجرات ، سندھ ، پنجاب |
جغرافیائی خصوصیات | |
متناسقات | 26°59′04″N 71°00′06″E / 26.984444444444°N 71.001666666667°E |
رقبہ | 200000 مربع کلومیٹر |
بلندی | 457 میٹر ، 61 میٹر |
قابل ذکر | |
جیو رمز | 1270835 |
درستی - ترمیم |
طبعی حالت
ترمیمدریائے سندھ کی وادی مشرق کی سمت تھر کے ریگستان سے گھری ہوئی ہے ۔ برصغیر کا یہ عظیم ریگستان تین سو میل وسعت کے ساتھ اپنی خاموشی اور تنہائی کی چادر میں جیسے جیسے بڑھتا ہے ویسے ویسے ہی بلند ہوتا جاتا ہے ۔ تا آنکہ کوہ آبو اور ارادلی کے پہاڑی سلسلے سے جاملتا ہے ۔
جنوب کی سمت تقریباًً جمراوَ ہیڈ کے عرض البد سے رن کچھ تک واضح ہے ۔ آگے شمال کی سمت میں ریت کے ٹیلے وادی کی سیلابی مٹی کے میدان میں اندر ملتے ہیں ۔ اس رتیلی سرحد کے شمال اور جنوب میں جو رد بدل ہوتا ہے وہ جنوب مغربی مان سون پر منحصر ہوتا ہے ۔
یہ رگستان طبعی طور پر راجپوتانہ کا حصہ ہے ۔ ساحل کی طرف سے چلنے والی ہواؤں کے نتیجے میں جنوب مغربی تھر کا ریگستان ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں کی شکل میں بلند ہو گیا ہے اور یہ بھٹ کہلاتے ہیں ۔ یہ ہوا کے رخ پر جنوب مغرب سے شمال مشرق کے رخ پر پھیلے ہوئے ہیں ۔ ان ٹیلوں کے سلسلے کو جگہ جگہ رہت ڈھیر کاٹتے ہیں ۔ یہ سلسلہ تقریباً ڈیڑھ سو میل کے بعد باڑمیر سے آگے تک ملتا ہے ۔ یہ ریت ہوا سے اڑنے والی ہے ۔ اس لیے ان کی شکلیں اور محل بدلتے رہتے ہیں ۔ کسی بھاری سخت چیز کے ساتھ یا آڑ میں ریت جمع ہوتے ہوتے پہاڑی بن جاتی ۔ جس میں آڑ کی طرف عمودی ڈھلان بن جاتی ہے ۔ جس کی شکل گھوڑے کی نال کی سی ہوتی ہے ۔
یہ ہوا کافی تیز اور مسلسل جنوب مغربی تھر میں چلتی رہتی ہے خاص کر رات کے وقت ۔ چنانچہ ان ٹیلوں کی درمیانی وادی ٹالی اور ڈہر کہلاتی ہے ہوا ان ریٹ اڑا دیتی ہے ۔ لیکن مان سون ست ہو تو یہ ریٹ ٹیلوں کی شکل اختیار کرلیتی ہے ۔ باڑہ میر سے آگے جنوب مغرب کی طرف ٹیلے ڈھلان شکل میں بن جاتے ہیں ۔ ایسی پہاڑیاں شمال میں بیکانیر تک چلی گئیں ہیں ۔
وسطی اور شمالی ریگستان میں بھٹ اور ترائی کا سلسلہ جنوب مغربی اور شمالی مشرقی ہونے کی بجائے تقریباًً شمالی جنوبی ہیں ۔ بھٹ اور ترائی کی جگہ سیکڑوں مربع میل کے علاقہ میں ریت کے بڑے بڑے ڈھیر پھیلے ہوئے ہیں ۔ گہرے اور نرم ریت کے یہ پلیٹو دراڑیں کہلاتے ہیں اور ہر رخ کی ہوا کے ساتھ ان کی شکل بدلتی رہتی ہیں ۔ اس کے نتیجہ میں ان پر نباتات کا اگنا ناممکن ہوجاتا ہے ۔
یہ جمع شدہ رہت صحرا میں بناتات کو پرورش رکھتی ہے ۔ اس ریت پر چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں اگی ہوتی ہیں ۔ یہ مٹیالے سبز سرخ جھنڈ پتوں سے آزاد کھپ ، بھوگ کی جھاڑیاں یابو ، لانی اور آگ کے پودے ہوتے ہیں ۔ ان پودوں میں زیادہ جسامت اور استعمال کڑر اور پیلوں کی جھاڑیوں کا ہوتا ہے ۔ کھبڑ عموماً کھاری زمین پر یا ترائی کی سخت زمین پر کنڈی اور بیر ہوتے ہیں ۔ کنووَں کے قریب کنڈی کا پودا اونچا ہوتا ہے لیکن ترائی میں پست ہوتا ہے
بے شمار اونٹ ، بکریاں اور دوسرے جانور ان جھایوں کو کھاتے ہیں ۔ ریگستان کی گھاس میدانی گھانسوں سے بہتر اور غذائیت والی ہوتی ہے ۔ یہاں کئی ماہ تک سبزہ کا نشان نہیں ملتا ہے ۔ مگر جیسے بارش ہوتی ہے یک لخت ریت پر سبزے کی چادر پھیل جاتی ہے اور مویشیوں کے بڑے بڑے گلے ریگستان میں جھوڑدیے جاتے ہیں اور وہ گھاس کھا کر جلد موٹے ہوجاتے ہیں ۔
یہاں عام دنوں میں یہاں پانی کی شدید قلت رہی ہے ۔ اکثر انسانوں اور جانوروں کے لیے دو سے تین سو فٹ کہرے کنوَں سے پانی حاصل کیا جاتا ہے ۔ اس لیے کھیتی باڑی صرف وہاں ہوتی ہے جہاں ترائی میں یا جہاں پشتے بناکر بارش کے پانی کو محفوظ کیا گیا ہو ۔ اگر مناسب وقت پر مناسب بارش ہوجائے تو باجرہ اور دوسری بہت عمدہ فضیں حاصل ہوتی ہیں ۔ لیکن یہاں کے بشتر باشندے گلے بانی کرتے ہیں اور اپنے جانور ، گھی اور قالین وغیرہ فروخت کرکے وہاں سے اپنی ضرورت کا غلہ حاصل کرتے ہیں ۔
جھیلیں
ترمیمعجیب بات یہ اس صحرا میں کچھ جھیلیں بھی موجود ہیں ۔ لیکن انھیں میٹھا پانی کے تلاب کہنا بہتر ہے ۔ یہ تالاب صحرا کے اندونی علاقہ میں ہیں ۔ البتہ کھار ، الکلی جھیلیں بیت سی ہیں ۔ وہ ایسے نشبوں میں واقع ہیں جنہیں گوچر (چراگاہ) کہا جاتا ہے ۔ دراڑوں کے کنارے پر یہ ڈھند عام طور پر کھاری یا لکلی ہیں ۔ لیکں جن مقامات پر ریت زرا انچی ہے اور پانی وہاں ٹہر جائے تو میٹھا ہوتا ہے ۔
دریا
ترمیمیہاں صحرا میں دریاؤں کے نشانات بھی ملتے ہیں ۔ یہ دریا جو طبعاً سندھ کی وادی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ کبھی جو یہاں بہتے تھے ۔ اب ان کی گزرگاہوں پر ریت نے قبصہ کر رکھا ہے ریگستان کے جنوبی حصہ میں نمک کے بڑے بڑے ذخیرے ہیں ۔ جنہیں برساتی نالوں نے جمع کر رکھا ہے ، جن کا پانی دھوپ میں خشک ہوجات ہے اور کچھ زمین میں جذب ہوجاتا ہے ۔
رہن سہن اور پیشہ
ترمیماس علاقوں کے باشندوں کے رہن سہن میں صدیوں میں کم ہی تبدیلیاں واقع ہوئیں ہیں ۔ یہاں کے لوگ زیادہ تر چرواہے اور غلہ بان رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ وہ اون کی کتائی ، کھالوں سے جمڑا بنانے کا کام بھی کرتے رہے ہیں ۔ زراعت اسی وقت ممکن ہوتی تھی جب یہان مناسب بارشیں ہوجائیں ۔ ان کے کھیت چھوٹے چھوٹے ٹکروں میں ہیں ۔ جنہیں عموما اونٹ کی مدد سے ہل جوتا جاتا تھا ۔ یہاں کے لوگ گول گول چھوپڑیاں بنا کر رہتے ہیں ۔ جن میں لکڑیوں کی ضرورت پیش نہیں آتی ہے ۔ یہاں کی معیشت مویشیوں پر منحصر ہے ۔ اس لیے جس سال بارش نہیں ہو یا مسلسل دو سال تک کم مقدار میں ہو تو قحط کے آثار نمودار ہوجاتے ہیں ۔ جب قحط پڑتا ہے تو زیادہ اموات میوشیوں کی ہوتی ہیں ۔ کیوں انھیں میدانی علاقواں میں لے جانے میں پس و پیش کرتے ہیں کہ شاید بارش ہوجائے اور جب بارش نہیں ہوتی ہے تو جانوروں میں اتنی سکت نہیں رہتی ہیں کہ وہ جل کر جاسکیں ۔ اس لیے انھیں ان کے حال پر چھوڑ کر وہاں کے باشندے نکل جاتے ہیں ۔ اونٹ اور بکریاں کم ہلاکے ہوتی ہیں ۔ کیوں کہ یہ جھاڑیوں سے پانی کی کچھ مقدار حاصل کرلیتی ہیں ۔
باشندے
ترمیمہم دریائے سندھ کے مشرق کنارے سے جیسے جیسے صحرا کی طرف جائیں گے تو صحرائی باشندے نظر آئیں گے ۔ شروع میں اکثر مسلمان ملیں گے ، لیکن ہندو بھی نظر آئیں اور آہستہ آہستہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا ۔ یہاں تک پاک و ہند کی سرحدوں کے قریب صحرا میں ان کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ نظر آئے گا ۔ ان میں زیادہ تر بھیل ، کولی ، پتھل ، کورو ، ربیاری ، جاٹ ، برہمن ، اڑورا ، دھوت ، سوگدی ، دھات ، امڑ اور سوڈھا وغیرہ ملیں ۔ لیکن ہم شمال مشرق کی طرف جائیں گے تو دھیا ، چوہان اور بھٹی بھی ملیں گے ۔
جب کہ یہاں کے مسلمان آبادی میں سوڈھا ، لوہانہ ، امر ، جٹ ، کھوسہ ، دھات ، بھٹی جویا ، دھیا ، جونیجو ، بھٹی ، دھیا ، جویا ، داود پوترے ، سرائی اور مہر وغیرہ ملیں گے ۔ مذہب کا یہ تناسب سرحد پار کرنے کے بعد الٹ جاتا ہے اور جیسے جیسے اندر کی طرف جائیں مسلمانوں کی کم اور ہندووَں کی تعداد بڑھتی جائے گی ۔ اگرچہ بعض ایسے مسلم قبائل ملتے ہیں جو سرحد پار کرنے زیادہ بستے ہیں مثلاً مہر ۔
کولی
ترمیمیہ قوم تھر کے صحرا میں کثرت سے آباد ہیں اور ان کا شمار اب بھی پس ماندہ انسانوں میں ہوتا تھا ۔ ان کے لیے کہا جاتا تھا کہ یہ صورت و سیرت میں صحرائی جانوروں سے کچھ بہتر ہیں ۔ یہ لوگ ہر اس دیوتا کو بوجھتے ہیں جس کو ہندو پوجتے ہیں خصوصاً ماتا کو اور ہر جانور کو کھالیتے ہیں اور یہ گائے ، ہرن ، سور اور دوسرے جنگلی جانوروں کو بھی نہیں چھوڑتے ہیں ۔ چاہے شکار کیا ہو یا کہیں مرا ہوا ملے ۔ یہ خود کو راجپوت سے کہتے ہیں ۔ یعنی چوہان کولی ، پرہاڑ کولی یا راٹھور کولی وغیرہ ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ قدیم زمانے کے کولی ہیں ۔ ہندو کپڑا بننے والے بھی کولی ہیں اور مگر کپڑا بننے والے اپنے کو جھلاد کہتے ہیں ۔ جب کہ مسلمان جولاہا کہلاتے ہیں ۔
بھیل
ترمیمبھیل بھی کولیوں کی طرح بلکہ کولیوں سے کچھ پست ہیں ۔ کیوں کہ یہ لوگ گیڈر ، لومڑی ، نیولے سانپ وغیرہ جیسے جانور بھی کھالیتے ہیں ۔ البتہ وہ مور کھانے سے پرہیز کرتے ہیں ۔ کیوں کہ وہ جس ماتا کی پوجا کرتے ہیں مور کا تعلق اس سے بتایا جاتا ہے ۔ تاہم دوسرے تمام معمالات میں کولیوں کی طرح ہیں ، مگر کولی اور بھیل آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں نہ ساتھ کچھ کھاتے ہیں ۔ پہلے یہ اکثر تلوار اور تیر کمان اور اکا دکا بندوق بھی رکھتے تھے اور غارت کرتے تھے ۔
پتھل
ترمیماصل میں کاشتکار اور امن پسند ہیں اور ان میں سے کچھ دکان دار بھی ہیں ۔ یہ لوگ بھی کشرت سے صحرا میں ہیں ۔ پتھل کی مثال کورمی ہندوستان مین اور کولمبی مالوا اور دکن کے ہیں ۔
کورو
ترمیمیہ بھی راجپوت ہیں اور گو ان کی عادتیں جرائم پیشہ لوگوں جیسی ہیں ۔ تاہم یہ امن پسند اور بے ضرر لوگ ہیں ۔ یہ خانہ بدوش ہیں اور اپنے جانوروں کو لیے پھرتے ہیں اور جہاں کوئی چشمہ یا چرا گاہ نظر آئی وہاں مقیم ہوجاتے تھے ۔ یہ وہاں پر چھپر پیلو کی شاخوں اور درختوں سے بنا کر اسے اندر سے مٹی لیپ دیتے ہیں اور باہر لگتا نہیں ہے کہ اندر کوئی رہتا ہے ۔ یہ لوگ گائے ، بھینس اور اونٹ پالتے ہیں اور ان کا دودھ ، گھی اور جانوروں کی فروخت سے گزارہ کرتے ہیں ۔
دھوت یا دھاتی
ترمیمان کا طرز عمل کورو کی طرح ہے ۔ یہ جانور چراہتے ہیں اور کچھ زمین بھی کاشت کرتے ہیں ۔ مگر ان کی گذر اوقات جانوروں کے دودھ سے گھی بیچ کر گزارا کرتے ہیں ۔ یہ رابڑی اور جھاچھ نہایت پسند کرتے ہیں ۔ رابڑی جو باجرہ اور جوار میں دودھ ملا بنائی جاتی تھی ۔ یہ سوکھی مچھلی کے بھی بہت شوق سے کھاتے ہیں ۔
ربیاری
ترمیمیہ انٹ پالتے ہیں اور ان میں بہت سے لوگ مسلمان بھی ہیں ۔ یہ نہایت چالاک ہیں اور اونٹوں کی چوری کے لیے دور دراز علاقوں میں جاتے ہیں ۔ اونٹوں کے کسی ریوڑ کو ٹار کر ان کا تجربہ کار اپنی برجھی سے ایک اونٹ کو زخمی کردیتا تھا اور اس کے خون سے کپڑے کا ایک ٹکڑا تر کرکے اپنی برجھی کے سرے پر باندھ کر ایک اونٹ کو سونگھاتا تھا ۔ اس سے وہ اونٹ بدحواس ہوکر بھاگتا تھا اور اس کے پہچھے دوسرے اونٹ بھی دوڑتے تھے ۔ اس طرح وہ ان اونٹوں بھگاکر لے جاتے تھے ۔
لوہانہ
ترمیمیہ بھی صحرائی علاقہ کے باشندے ہیں ۔ یہ پہلے راجپوت کہلاتے تھے ۔ ان کا پیشہ تجارت اور دکان داری ہے ۔ یہ مسلمانوں کے ساتھ کسی قسم کا پرہیز نہیں کرتے ہیں اور گائے کے علاوہ ہر قسم کا گوشت کھالیتے ہیں ۔
ارورا
ترمیمیہ قوم ہر پیشہ کرتی ہے ۔ یہ تجارت اور کاشتکاری بھی کرتے ہیں ۔ یہ بڑے چست ، جفاکش اور ہوشیار ہیں ۔ ان کی بڑی تعداد ملازمت پیشہ ہے ۔
بھاٹیا
ترمیمیہ بھی تجارت پیشہ ہیں ;180; یہ چلاکی اور ہوشیاری میں مشہور ہے ۔ پہلے ان کی دوکانیں تجارتی مقامات سکھر شکار پور ، حیدرآباد اور جے پور میں بھی تھیں
پاک ہند تقسیم کے وقت راجستھان ضلع ناگور ،جودھپور۔،بیکا نیر،جے پور،سے بھاٹیا قوم ہجرت کر کے سندھ کے ریگستان۔۔تھر پارکر۔۔عمرکوٹ۔۔سانگھڑ۔۔کے کچھ علاقوں میں آکر آباد ہو گئی تھی۔۔۔ جو ابھی۔۔۔( مارواڑی بھٹی ) کے نام سے۔۔۔کنری،بستان،سانگھڑ،حیدراباد،کراچی میں آباد ہے[راجستھان۔۔جلد 1 1]
برہمن
ترمیمعجیب بات اس صحرا میں رہنے والے برہمن اپنی زنار کو گلے میں نہیں ڈالتے ہیں اور یہ کاشتکاری اور مویشی چراتے ہیں اور تجارت بھی کرتے ہیں ۔ البتہ مچھلی اور گوشت کو چھونے سے پرہیز کرتے ہیں اور تمباکو بھی نہیں پیتے ہیں ۔ کھانا ہر کسی کا بنا ہوا کھالیتے ہیں ۔ نہ چوکا چولہ بناتے ہیں ۔ ہر برتن کو مٹی اور پانی سے دھوکر استعمال کرلیتے ہیں ۔ یہ اپنے مردے کو جلانے کی بجائے اپنے مکان کی دہلیز سے متصل دفن کرتے ہیں ۔ اس پر چبوترا بناکر اس پر شیو کی مورت اور ایک پانی کا برتن رکھ دیتے ہیں ۔
پوکرنا برہمن
ترمیمیہ بیکانیر ، جلسمیر اور ماڑوار میں کثرت سے ہیں اور صحرا میں سندھ گھاٹی تک آباد ہیں ۔ ان کا خاص پیشہ کاشتکاری اور چراہے ہیں اور تجارت کی طرف بھی راغب ہیں ۔ ان کے متعلق مشہور ہے کہ یہ بیلدار تھے ۔ انھوں نے آل یعنی تالاب پوکر یا پوشکر کا کھودا تھا اس لیے انھیں برہمن بنا دیا گیا اور پوکرن انھیں کہا جانے لگا اور یہ کدال کی پوجا کرتے ہیں ۔
پالیوار
ترمیمپال جس کے معنی چرواہے کہ ہیں ۔ مگر یہ خود کو برہمن کہلاتے ہیں ۔ مگر ان کا پیشہ تجارت ہے اور یہ بھیڑوں کا اون اور گھی خرید کو باہر بھیجا کرتے تھے ۔ یہ خود بھی بھیڑیں بھی پالتے ہیں ۔ یہ اپنی ہی قوم میں شادی کرتے ہیں ۔ حیرت کی بات یہ ہے یہ گھوڑے کی باگ کی پرستش کرتے ہیں ۔ اس بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ستھی النسل ہیں اور ان کے گرو تھے اور اب انھوں نے تجارت شروع کردی ہے ۔
سوڈھا
ترمیمصحرا میں بسنے والے سوڈھا جو پڑھار کی ایک شاخ ہیں ، انھوں نے ہی سکندر کا مقابلہ کیا تھا اور یونانیوں نے انھیں سوگڈی لکھا ہے ۔ صحرا میں جو سوڈھا آباد ہیں ان کی اکثریت ہندو ہے لیکن کچھ مسلمان بھی ہیں ۔ صحرا جہاں چند سال قحط پڑتا ہے تو سوڈھا قبائل سندھ چلے جاتے تھے ۔ وہاں کے مقامی باشندے اناج دیتے تھے اور سوڈھا اس کے بدلے اپنی لڑکیاں دے دیا کرتے تھے ۔ یہی وجہ دوسرے راجپوت انھیں نہ لڑکی دیتے ہیں اور نہ ان کی لڑکیاں لیتے ہیں ۔ یہاں صحرائی لڑکیاں اپنے حسن کے باعث مشہور تھیں اور کوئی سندھی کسی دھاتی لڑکی کے حسن کے بارے میں سنتا تو وہ اس کے اس باپ کے پاس غلہ بھیجواتا تھا ۔ اسے شاذ و نادر معنی کیا جاتا تھا اور عموماً اسے لڑکی دے دی جاتی تھی ۔
سوڈھا قوم نے مذہبی توہمات نہیں رکھتے ہیں ۔ وہ مسلمان کے ساتھ ایک برتن سے پانی پی لیتے ہیں اور ایک ساتھ حقہ پیتے ہیں ۔ البتہ حقہ کی مینال اتار دیتے ہیں ۔ یہ پہلے غارت گری اور ذاکہ زنی کرنے بھاولپور سے گجرات تک کرتے تھے ۔ یہ تلوار ساتھ رکھتے تھے مگر ان کا اصل ہتھیار گوبھن تھا ۔ ان لباس دوسرے باشندوں کی طرح کا ہوتا ہے ۔ البتہ پگڑی الگ ہوتے ہے ۔ جس وہ لوگ پہچانے جاتے ہیں ۔ ان کی ایک شاخ سمیجا اب مسلمان ہے ۔ جیسے جیسے دریائے سندھ کی گھاٹی کی طرف جائیں گے وہاں کے سوڈھا مسلمان ہیں ۔
بھٹی
ترمیمیہ جلسمیر میں زیادہ آباد ہیں سندھ و پنجاب میں ملتے ہیں ۔ لیکن سندھ و پنجاب میں یہ مسلمان ہیں ۔ جب کہ جلسمیر میں یہ ہندو مذہب ہیں ۔ یہ یادو کی شاخ ہیں اور کا کہنا ہے کہ انھوں نے پنجاب پر حکومت کی ہے اور اس سے پہلے گجنی (غزنی) و زابل پر حکومت کرتے تھے ۔
دھات ۔ یعنی امر سومر
ترمیمدھات قوم کا سب سے بڑا شہر امر کوٹ ہے ۔ جسے آج کل عمر کوٹ کہا جاتا ہے ۔ یہ عرصہ دراز سے پرمار قوم کا گڑھ رہا ہے ۔ اس علاقہ میں مشہور قوموں میں سوڈا ، امر اور سومر ہیں ۔ سومرو مسلمانون ہو گئے تھے اور انھوں نے سندھ پر طویل عرصہ تک حکمرانی کی تھی اور یہ تینوں پرمار کی شاخ ہیں ۔
دھیا
ترمیمیہ قدیم قوم ہے اور صحرا میں آباد تھی ۔ دریائے سندھ و ستلج کے مابین آباد تھی اور راجپوتوں کے چھتیس شاہی خاندانوں میں شامل ہے ۔ غالباً یونانیوں کے داہی یہ اب بھی صحرائی علاقے میں بیکا نیر کی طرف آباد ہے اور ان کی پیشہ ٖغلہ بانی اور زراعت ہے ۔
جوہیا یا جویا
ترمیمیہ قوم وہیں آباد تھی جہاں دہیا آباد تھی اور یہ دونوں قو میں یہ وہاں سے ریگستان میں شمال کی طرف پھیل گئیں ۔ پرانی تاریخوں میں انھیں ملک جنگل دیس کہا گیا ہے ۔ اس جنگل میں ہریانہ ، بھٹ اور ناگور شامل ہیں ۔ اب یہ پنجاب کے جنوبی حصہ اور سندھ کے صحرائی علاقے میں آباد ہیں اور مسلمان ہے ۔
سمیجا
ترمیمیہ سوڈھوں کی ایک شاخ ہیں اور یہ ریگستان سے لے سدنھ کی گھاٹی تک آباد ہیں ۔ ان عادات وغیرہ دھات کی طرح ہیں ۔ یہ لوگ غلہ بانی اور مویشی پالتے ہیں اور ماضی میں یہ دوسری صحرائی قوموں کی طرح لوٹا ماری بھی کرتے تھے ۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ اپنے سر اور ڈارڑی کو نہیں کٹواٹے تھے ۔ ان کی عورتیں اپنی بد زبانی میں مشہور تھیں ۔
ڑانگڑ
ترمیمیہ بھٹیوں کی شاخ ہیں اور مسلمان ہیں اور نہایت خراب بد وضع مشہور ہیں ۔ یہ کاشتکاری کرتے ہیں اور جانوروں کو جراتے ہیں ۔ یہ زیادہ تر جلسمیر اور بیکانیر کے علاقہ میں آباد ہیں ،
میر یا میریا
ترمیمیہ جلسمیر کے علاقے میں آباد ہیں اور بھٹیوں کی ایک شاخ ہیں ۔ یہ بھٹیوں کی طرح عادات کے مالک ہیں ۔ یہ بھی زراعت اور غلہ بانی سے وابستہ ہیں ۔
مہر
ترمیمیہ بیکانیر اور جلسمیر کی طرف آباد ہیں اور کچھ سندھ میں سکھر تک آباد ہیں مسلمان ہے ۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جویوں کے ہم نسل ہیں ۔ اس طرح یہ بھی راجپوت ہوئے ۔ مگر جویا چھتیس راج کلی میں شامل ہیں لیکن یہ نہیں ہیں ۔ ان پیشہ بھی کاشتکاری اور غلہ بانی ہے ۔
جونجو
ترمیمیہ پڑھیار کی شاخ ہیں جو چھتیس راج کلی میں شامل ہیں ۔ لیکن اس نام کا ابتدا لفظ جونا ہے جس کے معنی پرانا یا آزمایا ہوا کے ۔ مگر جون یا یون ہند آریائی میں یونانیوں کو کہا جاتا تھا اور سیتھیوں سے پہلے یعنی 051 ق م میں یونانی سندھ پر حکومت کر رہے تھے ۔ کیا ایسا تو نہیں ہیں یہ یونانیوں کے اخلاف ہوں ۔
کھوسہ
ترمیمان کا شمار بلوچ قبائل میں ہوتا ہے اور ان کا نام بلوچ شاعری اور بلوچ قبائل میں ملتا ۔ لیکن ان کا نام پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہ ہندر آریائی باشندے ۔ کیوں کہ یہ ترکیب خالص ہند آریائی ہے ۔ تاہم یہ بھی صحرائی علاقہ میں آباد ہیں اور تالپوروں کے دور میں یہ راجپوتانہ کے اندر جاکر لوٹا ماری کیا کرتے تھے ۔ اس پر انگریزیوں نے سختی سے تالپوروں سے انھیں روکنے کا کہا تھا ۔ کھوسکی شہر ان کا ہی بسایا ہوا ہے ۔
ڈاہری
ترمیمان کا شمار راجپوتوں کے چھتیس شاہی خاندانوں میں ہوتا ہے اور ہندووَں کے قدیم تذکروں میں ان کی ریاست سندھ کے علاقے میں بتائی ہے ۔ مگر نہ جانے کیوں سوڑلے نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ راجپوتانہ سے آئے ہیں ۔ حالانکہ یہ راجپوتانہ میں بالکل نہیں پائے جاتے ہیں ۔ ان کی بشتر آباد سندھ خاص پر اپر سندھ اور کچھ جنوبی پنجاب میں بھی آباد ہیں ۔ ڈھرکی شہر ان کے نام پر ہے ۔
سرائی
ترمیمسرائی یعنی سرے یا شمالی باشندے کے ہیں اور یہ زیادہ تر کلہوڑوں کے لیے استعمال ہوئے ۔ کلہوڑوں کے دور میں یہ اعزازی کلمہ تھا ۔ مگر کلہوڑوں کے بعد اس کی اہمیت گھٹ گئی ۔ اب اس کا استعمال کم ہوتا ہے ۔ کلہوڑو بھی سرائی کا استعمال نہیں کرتے ہیں اور وہ اب کلہوڑو کی بجائے زیادہ تر اپنے لیے عباسی استعمال کرتے ہیں ۔
جٹ
ترمیمسندھ میں آباد بشتر قدیم باشندے جٹ ہیں اور یہ مختلف ناموں سے آباد ہیں تاہم جٹ نام سے بھی صحرائی اور سندھ کی گھاٹیوں میں کثیر تعدا میں آباد ہیں ۔ جٹ جو سیتھیوں کے اخلاف ہیں ۔ سیتھوں نے یہاں دوسو سال سے زیادہ عرصہ تک حکومت کی اور یہ علاقہ ان کی وجہ سے ہندو سیتھہ کہلاتا تھا ۔ ان کا پیشہ غلہ بانی خاص کر اونٹ چراہانا اور زراعت ہے ۔ جاتی شہر انھوں نے آباد کیا تھا ۔ جو جاٹ کسی اور نام سے موسوم ہیں وہ سماٹ کہلاتے ہیں ۔
سومرہ
ترمیمپہلے ذکر ہو چکا ہے کہ سومرہ پڑھیاڑ کی شاخ ہیں اور اومڑ و سومر دونوں کا ساتھ نام ملتا ہے ۔ یعنی یہ ہم نسل ہیں ۔ اگرچہ سومرہ مسلمان ہو گئے تھے اور انھوں سندھ کے مختلف علاقوں میں پانسو سال کے لگ بھگ حکمرانی کی ۔ ان کا پہلا درالریاست تھری تھا ۔ یہ ماتلی کے قریب تھا اور دریائے پران کے خشک ہونے کی وجہ سے ویران ہو گیا تھا ۔ اس کے بعد سومروں نے مہاتم تور یا محمد طور کو اپنا دالریاست بنایا تھا ۔ ان کی حکومت کو سموں نے ختم کیا تھا ۔
یہ تھر کے علاقے میں بھی آباد تھے اور ان کی آبادیوں کے کھنڈر رہمکی بازار سے لے کر تھرپاکر کے علاقہ میں پچیس کوس تک پھیلے ہوئے ہیں اور یہ قصبہ یا گاؤں سمر نجن ماڑیوں یعنی سومرا کے گھر کہلاتے ہیں ۔
ماخذ
ترمیمڈی ڈبلیو ٹالبورٹ ۔ خلاصہ اقوام ہند
سر ڈیزل ایپسن;7; ;7; ۔ پنجاب کی ذاتیں
ای ڈی میکلین ، ایچ روز۔ ذاتوں کا انسائیکلوپیڈیا ۔
ایچ ٹی لیمبرگ ۔ سندھ ایک عام جائزہ
جمزٹاڈ ۔ تاریخ راجستان
صحرائے تھر کے نباتات
ترمیم-
Prosopis cineraria (Khejri tree)
-
نیم (نیم)
-
لہوڑا (Rohida tree)
-
Salvadora oleoides (Pilu tree)
-
سرس (Siris tree)
-
Balanites roxburghii (Inguda tree)
-
Capparis decidua (Kair tree)
-
Acacia tortilis (Vilayatibabul tree)
-
Acacia leucophloea (Remjha tree)
-
Acacia senegal (Gum-arabic Tree)
-
Calligonum polygonoides (Phog shrub)
-
کیکر (Babul tree)
-
Ziziphus zizyphus (Ber tree)
-
Carissa carandus (Karonda shrub)
-
Calotropis procera (Aak shrub)
-
Kankeda (Rajasthani) shrub or small tree
-
Leptadenia pyrotechnica (Khimp shrub)
-
Simmondsia chinensis (Jojoba shrub)
-
ارنی (Arana shrub)
-
Murayla (Rajasthani) shrub
-
Mimosa hamata (Alāy shrub)
-
Tribulus terrestris (Gokharu herb)
-
Aerva tomentosa (Bui herb)
-
Crotalaria burhia (Sania herb)
-
Saccharum munja (Munja grass)
-
Saccharum spontaneum (Kans grass)
-
Sorghum halepense (Barru grass)
-
Masa (Rajasthani) herb
-
Cenchrus biflorus (Bharut grass)
-
اندرائن (Gadtumba climber)
مزید دیکھیے
ترمیمبیرونی روابط
ترمیمویکی ذخائر پر صحرائے تھر سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "صفحہ صحرائے تھر في GeoNames ID"۔ GeoNames ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 ستمبر 2024ء
- ↑ Britannica
- ↑ ا انگریزی ویکیپیڈیا
26°59′04″N 71°00′06″E / 26.98444°N 71.00167°E