کرنسی اسمگلنگ ۔۔۔ ایک سنگین جرم آج کے دور میں بین الاقوامی تجارت کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ معاشی ماہرین اسے معیشت کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیتے ہیں۔ کوئی بھی ملک اس میں شمولیت کے بغیر خوش حال نہیں رہ سکتا۔ دوسری طرف بین الاقوامی تجارت زیادہ تر ڈالر کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اس لیے اکثر ممالک کی معاشی پالیسی یہ ہوتی ہے کہ ان کے خزانے میں ڈالر کی ایک بڑی مقدار موجود رہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ڈالر کی بیرون ملک منتقلی کی ایک حد مقررکی جاتی ہے۔ مقررہ مقدار سے زیادہ ڈالر بیرون ملک لے جانے کی صورت میں ٹیکس لاگو ہوتاہے۔ کچھ لوگ غیر قانونی طریقے اور اسمگلنگ کے ذریعے ڈالر وغیرہ بیرون ملک لے جاناچاہتے ہیں۔ ان میں سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ڈالر وغیرہ کے متعلق ٹیکس کے ملکی قوانین غیر منصفانہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بسا اوقات ذاتی کاروبار کے سلسلے میں ڈالر وغیرہ بیرون ملک لے جاناپڑتے ہیں۔ اس صورت میں اگر قانونی راستہ اختیارکیا جائے تو بھاری بھرکم ٹیکس کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ متعلقہ کاروبار میں بچت بہت کم ہوتی ہے۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ بات درست نہیں،کیونکہ پاکستان میں جی ڈی پی اور ٹیکس کے مابین ریشوبہت کم ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ تناسب 40 سے 50 فیصد ہوتا ہے،جبکہ پاکستان میں 2014ء کے معاشی سروے کے مطابق یہ تناسب 10 فیصد تھا،جو ترقی یافتہ ممالک کی بنسبت بہت کم ہے۔ علاوہ ازیں بروقت اور ٹھیک ٹیکس اداکرنے والوں کو حکومت کی جانب سے بہت ساری رعایتیں بھی دی جاتی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ شریعت اشیا پرانسان کی جائز ملکیت کو تسلیم کرتی ہے۔ شرعی نقطہ نظر سے ریاست کے ہر شہری کویہ حق حاصل ہوتاہے کہ وہ شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے اپنا مال جہاں چاہے ،جیسے چاہے خرچ کرے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک مسلمہ اصول ہے کہ جب حکومتِ وقت کسی ملی یا قومی مصلحت کے پیش نظر کچھ قوانین لاگو کر دے توعوام پر ان قوانین کی پابندی شرعاً لازم ہوجاتی ہے،البتہ یہ ضروری ہے کہ ایسے قوانین نہ شریعت کے مخالف ہوں اورنہ ہی ان میں کسی قسم کی دینی یا دنیاوی خرابی ہو۔ اسلامی اقتصادیات میں اس کی بہت ساری مثالیں ملتی ہیں۔ بعض اوقات ایک تجارت صرف اس لیے ممنوع قرار پاتی ہے کہ اس سے معاشرے کے عام افراد کو نقصان پہنچتاہے،مثلاً:دیہی علاقوں کے لوگ اپنامال فروخت کرنے کے لیے شہر کا رخ کرتے ہیں۔ شہر کے کچھ تاجر نہیں چاہتے کہ باہر کے تاجر خود شہر میں داخل ہوں۔ وہ شہر سے باہر نکل کر دیہی علاقوں سے آنے والے تاجروں سے سستے نرخ پر سامان خرید لیتے ہیں اور شہر میں لاکر من پسند نرخ پر فروخت کرتے ہیں۔ تجارت کا یہ طریقہ اپنی ذات کے اعتبارسے ناجائز نہیں ،لیکن چونکہ اس سے معاشرے کے عام افراد کو نقصان پہنچتاہے ،اس لیے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا۔ شریعت کی تعلیمات کے مطابق اگر دیہی علاقوں کے تاجر شہر میں آکر اپنا سامان خود فروخت کریں تو اس سے ان تاجروں اور عوام دونوں کو فائدہ ہوگا۔ تاجروں کو یہ فائدہ ہوگا کہ انھیں شہر میں اشیاکے صحیح نرخ معلوم ہوجائیں گے۔ چنانچہ شہر کے تاجر ان کا استحصال نہیں کرسکیں گے۔ کسٹمرز کوبھی نسبتاً سستے ریٹ پر اشیاءمیسر آئیں گی۔ دراصل معاشیات کا اصول ہے کہ تاجر اور گاہک کے درمیاں "مڈل مین" جتنے کم ہوں گے ،اشیا کے ریٹ اتنے ہی کم ہوں گے۔

مندرجہ بالاتفصیل سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتاہے کہ ڈالریاکسی دوسری کرنسی کی اسمگلنگ جائز نہیں،کیونکہ اس میں درج ذیل خرابیاں پائی جاتی ہیں:#ایک جائز ملکی قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں مجموعی طور پر ملک اور قوم کا سخت نقصان ہوتاہے۔ اگر اس دھندے کو نہ روکا جائے تو ملک کا معاشی مستقبل خطرے میں پڑسکتاہے۔ شریعت نے ریاست کے جائز قوانین پر عملدرآمد کولازم قرار دیا ہے۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشادفرماتے ہیں:"اے ایمان والو!اللہ تعالی،اس کے رسول اور حکمرانوں کے جائز قوانین پر عمل کرو۔" (سورة النساء،آیت :59)#جب ایک آدمی کسی ملک کی شہریت اختیار کرتاہے تو درحقیقت وہ اس ملک سے یہ معاہدہ کرتاہے کہ اس کے جائز قوانین کی پابندی کو یقینی بنائے گا۔ غیر قانونی طریقے سے کرنسی بیرون ملک لے جانے میں اس معاہدے کی خلاف ورزی لازم آتی ہے۔ قرآن وحدیث میں معاہدے کی خلاف ورزی سے سختی سے منع کیا گیاہے۔ اللہ تعالی ارشادفرماتے ہیں:"معاہدات کی پاسداری کرو،کیونکہ معاہدات کے متعلق پوچھاجائے گا۔" (سورة بنی اسرائیل ،آیت:34)#مال اور عزت کو خطرے میں ڈالاجاتاہے جو کسی طرح جائز نہیں۔#نارمل انداز میں کرنسی بیرون ملک لے جانا کافی مشکل ہوتاہے۔ اس مقصد کے لیے رشوت کا لین دین کیاجاتاہے۔ رشوت کا لین دین قطعی حرام ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے:"حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت کا لین دین کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔" (جامع الترمذی،رقم: 1336)#اکثر وبیشتر اس طرح کے دھندوں میں جھوٹ اور دھوکا دہی سے کام لیناپڑتاہے۔ جھوٹ اور دھوکا دہی دونوں کبیرہ گناہ ہیں۔

مختصر یہ کہ فارن ایکسچینج کی اہمیت کے پیش ِنظر متعلقہ قوانین کو غیر منصفانہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ لہذا کرنسی اسمگلنگ نہ صرف قومی بلکہ شرعی لحاظ سے بھی ممنوع ہے۔ اس لیے بیرون ملک کرنسی لے جانے والوں کوچاہیے کہ اس کام کے لیے بہرصورت قانونی راستہ اختیارکریں۔ اس سلسلے میں ملکی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے مہذب اور محب وطن شہری ہونے کا ثبوت دیں۔