کلاس روم کا ماحول
کلاس روم کا ماحول کلاس روم کے نظم کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ ماحول ان تعلقات اور روابط کا نام ہے جو ایک مدرس اور طلبہ کے بیچ قائم ہوتے ہیں۔ اس تصور کے پس پردہ یہ خیال ہے مدرس کی شخصیت طلبہ کے رویوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔
مثبت ماحول
ترمیمکلاس روم کا ماحول اگر مثبت ہو، حسب ذیل باتیں دیکھی جا سکتی ہیں:
1۔ طلبہ مدرسین کے سمجھائے ہوئے سبق کو ٹھیک سے سمجھ پائیں گے۔
2۔ طلبہ اور اساتذہ میں صحیح ربط قائم ہوگا۔ طلبہ کی تفہیمی یا سمجھنے کی صلاحیت سے مدرس بہ خوبی واقف ہو گا اور اپنی تدریسی سرگرمیوں کو ان کے مؤافق ڈھال سکتا ہے۔
3۔ طلبہ اپنی دشواریوں کا کھل کر مدرس کے سامنے اظہار کر سکتے ہیں۔ وہ کھل کر سوالات پوچھ سکتے ہیں اور مدرسین ان کے تشفی بخش جوابات دیتے ہیں۔
4۔ تدریسی سرگرمیوں مکمل انہماک سے چل سکتی ہیں۔ ان میں کوئی روک ٹوک نہیں دیکھی جاتی ہے۔
5۔ طلبہ کی عدم دل چسپی اور بے زارگی کی فضا کا کوئی عنصر نہیں پایا جاتا۔
6۔ طلبہ میں پیش قدمی لینے کے جذبے کو سراہا جاتا ہے۔ زیر موضوع کسی عنوان پر طلبہ اپنے پاس پہلے سے موجود معلومات کلاس کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں۔
7۔ تخلیقی نوعیت سے بھی یہ ماحول مثبت ہے۔ کلاس کے دوران طلبہ مختلف موضوعات پر انفرادی پیش کش بھی تیار کر سکتے ہیں اور طلبہ کا ایک گروپ بھی تیار ہو سکتا ہے جو مباحثے کا حصہ بن سکتا ہے۔
8۔ کلاس روم میں طلبہ چوں کہ من لگا کر موضوعات کی گہرائی کو سمجھ پاتے ہیں، اس لیے وہ آگے کی زندگی کے لیے بھی تیار ہوتے ہیں۔ ان کی تجزیاتی، تقریری، تحریری، تنظیمی صلاحیتوں کو ابھارا جا سکتا ہے۔ یہ صفات انھیں ان کی مستقبل کی زندگی میں کام دے سکتے ہیں اور انھیں ایک کامیاب انسان بنا سکتے ہیں۔
منفی ماحول
ترمیممنفی کلاس روم کا ماحول مثبت ماحول کی عین ضد ہے۔ اس طلبہ یا تو کلام روم کی درس و تدریس سے بے زار ہوتے ہیں یا پھر اس میں خاص دل چسپی نہیں رکھتے۔ تدریسی عمل محض رسم ادائیگی یا امتحانات کی تیاری کا کام دیتا ہے۔ اس درس کے دور رس نتائج مرتب ہونے یا طلبہ کی مستقبل کی زندگی کو درخشاں اور تاب ناک ہونے کا امکان کم ہی رہتا ہے۔
معلمین کی اہمیت
ترمیمکلاس روم میں معلمین کئی سرگرمیوں سے طالب علموں میں سیکھنے کے شوق کو بڑھا سکتے ہیں۔ وہ انھیں بصری سرگرمیوں سے سکھا سکتے ہیں۔ اگر کوئی بات سمجھ میں نہیں آرہی تو وضاحت سے رہنمائی کرسکتے ہیں۔ طالب علموں کو کوئی بات سمجھ میں نہیں آرہی تو وہ اسی وقت اپنے اساتذہ سے معلوم کرکے اپنی الجھن دور کرسکتے ہیں ۔[1]