کونسل برائے افغان خواتین
افغان خواتین کونسل (اے سی سی)، (جسے خواتین کونسل بھی کہا جاتا ہے) افغانستان جمہوری جمہوریہ (1978-87ء) اور افغانستان جمہوریہ (1992ء-1987ء) کے درمیان میں ایک تنظیم تھی۔ 1989ء تک تنظیم کی رہنما معصومہ عصمت رودک تھی جو پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کی رکن نہیں تھی اور وہ 1991ء میں افغانستان کی وزیر تعلیم منتخب ہوئیں[1]۔معصومہ نے افغان خواتین کی شراکت اور کوششوں کے بارے میں پشتو اور دری دونوں زبانوں میں کئی کتابیں لکھی ہیں۔ان کی کتب کے تراجم انگریزی زبان میں بھی شائع ہو چکے ہیں۔
اس تنظیم کو معصومہ عصمت رودک سمیت آٹھ خواتین کے عملے سے چلایا جاتا تھا۔ عملے کے کچھ اراکین پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کے رکن بھی تھے۔ جب 1978 ءمیں نور محمد ترہ کئی کے کمیونسٹ دور حکومت نے خواتین کے برابر حقوق فراہم کیے تو ان کی وجہ سے خواتین کو اپنا شوہر اور تعلیم منتخب کرنے کا حق حاصل ہوا۔ ان کو اپنی زندگیوں کے بارے فیصلے کرنے کی صلاحیت ملی۔ ملک بھر میں اس تنظیم کی رکنیت تقریباً 150،000 تھی اور افغانستان کے صوبے میدان وردک اور زرغون کے علاوہ اس کی شاخیں ملک بھر میں موجود تھیں۔ کابل میں زیادہ تر خواتین نے طالبان کے رجعتی قوانین کا سخت مقابلہ کیا۔
افغان خواتین کونسل نے خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے عملی اقدامات کیے۔ جن میں ناخواندگی کے خاتمے اور عملی تربیتی شعبے جیسے نے سیکرٹری، ہیئر ڈریسنگ اور ورکشاپ وغیرہ جیسے امور میں فنی تربیت فراہم کی۔ خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ 1987ء کے مصالحتی مذاکرات میں اس تنظیم کی قربانی دے دی گئی۔
تنظٰم کے اہم پروگراموں میں سے خواندگی اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے تھا۔ اے ایف سی سروے 1991ء میں اندازہ لگایا گیا کہ 7 ہزار خواتین اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں زیر تعلم تھیں اور افغانستان کے اسکولوں میں تقریباً 230،000 لڑکیوں نے تعلیم حاصل کی تھی۔ سروے کے مطابق ملک میں تقریباً 190 خواتین پروفیسرز اور 22،000 خواتین اساتذہ موجود تھے۔[2]۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Mary Ann Tétreault۔ "Women and revolution in Africa, Asia, and the New World"۔ گوگل بکس۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 مارچ 2009
- ↑ Lawrence Kaplan۔ "Fundamentalism in comparative perspective"۔ گوگل بکس۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 مارچ 2009