ضلع باغ کا نواحی قصبہ خوب صورت گاؤں جو کبھی پانڈوز کی بستی رہی ہوگی کیونکہ دبے ہوئے آثار بھی ملتے ہیں۔ اور کھلاہانہ کی راج ترنگنی میں ان کورووں اور پانڈووں کی تفاصیل دستاب ہی۔ راہداریوں اور چشموں کی ساخت سے یقین بھی ہوتا ہے کہ یہ گاؤں کبھی زمانہء قدیم میں آباد رہا ہے۔ یہ میں نے اپنے تئیں کوشش اور تحقیق سے دریافت کر رکھا ہے۔ 1688 میں میرے جد امجد کے خاندان کو قحط سالی کا سامنہ ہوتا ہے۔ وہ سال 1004 عیسوی سے کہوٹہ راولپنڈی میں مقیم تھے شمالی پنجاب شدید قحط سالی کا شکار ہو گیا تھا۔ دو بھتیجوں کے ساتھ میرے بزرگ سنگری خان صاحب دریا جہلم سے پار خسالی یعنی پونچھ جا کر اپنے لیے نئی بستی بنانے کی جگہ تلاش کرنے لگے۔ ایک بھتیجا پلندری پسند کر بیٹھے جبکہ سنگری خان اور دوسرا بھتیجا سمہان خان آگے ٹولی پیر پہاڑ تک جا پہنچے۔ وہاں سے انھیں سامنے خوبصورت علاقہ نظر آیا۔ چونکہ انھیں ان کے بزرگوں نے نئی جگہ منتخب کرنے کی کچھ شرائط بتائیں تھیں۔ ایک یہ کہ چشمے زیادہ ہوں ۔ زمین ہموار ہو۔ جنگلی حیات بھی ہوں وغیرہ۔ ھندوستان میں مغل بادشاہ جہانگیر کا دور تھا جبکہ خسالی میں " آپ راجی" یعنی قبائل اپنی مرضی سے آباد ہو سکتے تھے ۔ چچا بھتیجا کے پاس ایک گھوڑا اور ایک کتا تھا۔ بڈالی میں رات بسر کی اور معراج والے چشمے کے قریب کھانے کے لیے انتظام بھی کیا۔ اسی دوران مج میں مار خور اور جنگلی بکریاں(رانسے) دیکھے۔ وہ سب علامات مل گئیں تو یوں تسلی کر کے واپس کہوٹہ (ٹھنڈا پانی ۔ ضراب کوٹ کہوٹہ) جا کراپنے بزرگوں سے اجازت چاہی۔ کچھ سامان جانور وغیرہ لیے اور یہ دو خاندان جہلم سے رسوں پر لگی ڈولی سے چڑھ گئے۔ چچانے نیچے ناڑی میں ایک چشمے کے پاس گھربنایا جہاں چچا بشیر لوگ رہتے ہیں اس بہتے چشمے کے آگے چل کر چوٹی سی کسی کے کنارے گھر کے کھنڈر میں نے دیکھ رکھے ہیں۔ ادھر ہی آبی زمین بنائی ۔ ادھر قریب ہی قبرستان بنا۔ گرمیوں کے لیے اوپر جا کر کھلی میں جا رہتے۔ آٹا پیسنے کی چکی (جندر بھی بنایا)۔ بھتیجا سمہان خان صاحب نے ڈاکٹر علی اکبر صاحب والے چشمے کے پاس بنایا۔قریب ہی آبی زمین بنائی اور اوپر قبرستان بھی بنایا۔ یہ دادا موسم گرما میں گلی کو بہک بنا کر گرمیاں گزارتے۔ یہ لوگ ھجرت کر کے بہت خوش حال ہوئے۔ آپ راجی کا دور تھا اس لیے انھیں اپنا دفاع بھی خود ہی کرنا پڑتا تھا۔ وقت گزرتا گیا اور انھوں نے دستکار خاندان بھی لا آباد کیے۔ 1688 سے 1890 تک ان کے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ غلہ پیدا ہوتا جو بارٹر کر دیا جاتا۔اس کے بدلے کپڑے، پارچات اور نمک شکر و مصالحہ جات لے آتے۔ آبادی بڑھتی گئی اور یہ گاؤں پھیلتا گیا۔ 1973 میں اور رشتے کے دادا جوسکول ماسٹر تھے نے گاؤں کے گھروں کا شمار کیا اور ایک فہرست بھی بنائی۔ کل دو صد بیس گھر تھے جو لڑیاں سے کہالیں تک تھے۔ تب کسی گھر کی چھت پر جسٹی چادر نہ تھی۔ حتی جامع مسجد بھی کچی ہی ہوا کرتی۔ گاؤں میں ایک سرخ بچھڑا رکھا جاتا جسے "سخی ناں داند" کہتے اور سال کی عمر کا چندہ کر کے خریدا ہوا یہ مکمل آزاد بچھڑا تین سال بعد ایک بھاری بیل ہو جاتا تب اس " بھاری ٹیری " پر ذبح کیا جاتا۔ اسی طرح ایک بکرا بھی ہر سال وہیں ذبح کیا جاتا۔ گرمیوں میں اب لوگ دور دراز بہکوں میں تین چار ماہ گزارنے جاتے۔ جمعرات کی شام بہک کے ہر مکین سے آٹا دودھ مکھن اکٹھا کر کے مسجد میں باٹ پکتا ۔ بچوں کے لیے یہ بہترین دعوت ہوتی۔ آہ یہ میرے پشواوں کا گاؤں۔ چار سو محبتیں تو میں نے بھی دیکھی ہیں۔ شنید ہے اب گاؤں سے 70 فیصد لوگ شہروں میں جا بسے ہیں۔ مجھے گاؤں کی یاد ناستالژی میں مبتلا کر دیتی ہے۔ اکیلے میں وہ ھستیاں جب یاد آتی ہیں تو رات رات بھر نیند نہیں آتی۔ کھرل گیالاں اب کھرل عباسیاں کہلاتا ہے۔ اللہ آباد رکھے۔یوں تو اس گاؤں پر ضخیم کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ احباب بصد شکریہ ۔ آپ کا اپنا محمد بشیر عبد الکریم عباسی( وطن سے بہت دور 2023)