روسی افغانستان سے قندھار کے ذریعے اس خطے میں داخل ہو سکتے ہیں، برٹش نے قندھار تک ریلوے پٹریوں کا جال بچھانے کا فیصلہ کر لیا، تاکہ روسی افواج کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ اپنی فوجوں کو وہاں بھیج سکیں۔ اس مقصد کے لیے برٹش کو مشہور 2290 میٹر بلند درہء کھوجک کو بائی پاس کرنا تھا جو صدیوں سے فوجوں، تاجروں اور فاتحوں کی گذر گاہ رہا ہے۔

3.9 کلومیٹر طویل یہ سرنگ 1888 سے 1891 کے درمیان درہ کھوجک کے نیچے تعمیر کی گئی تھی اور اس سرنگ کا نام بھی اسی درے کے نام پر کھوجک ٹنل رکھا گیا۔

سرنگ کے بعد شیلا باغ اسٹیشن تعمیر کیا گیا تھا — شیلا باغ اسٹیشن میں موجود ماضی میں استعمال ہونے والی چابیاں اس جگہ کی تاریخ کی شاہد ہیں ریلوے پٹری کوئٹہ سے گزرتے ہوئے کھوجک سرنگ پار کرتی ہے اور پھر سیدھا پاک افغان کے سرحدی شہر چمن تک جاتی ہے۔ برٹش اس سے زیادہ آگے نہیں جا سکے۔

سرنگ کے سامنے ایک چھوٹی تختی نصب ہے جس پر اس کا نام اور اس کی تعمیری مدت کندہ ہے۔ یہ جگہ شیلا باغ قصبے میں سطح سمندر سے 1939.8 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ شیلا ایک پشتو لفظ ہے جس کا مطلب ہے ایک موسمی پہاڑی ندی اور باغ کا ظاہر ہے کہ باغ ہی مطلب ہے۔

شیلا باغ کو لے کر کئی مقامی قصے کہانیاں مشہور ہیں مگر ان میں کسی ایک کی بھی تصدیق نہیں کی جا سکتی، مگر مقامی لوگ ان کے پختہ دعوے کرتے ہیں۔ ان میں سے پہلی تو یہ ہے کہ اس علاقے کا نام شیلا نامی ایک رقاصہ پر رکھا گیا ہے جو کھوجک ٹنل کے تعمیری کام پر انتھک محنت کرنے والے مزدوروں کا دل بہلاتی تھی۔

دوسرا ایک خوفناک قصہ یہ بھی ہے کہ اس سرنگ کے تعمیری منصوبے کے چیف انجینیئر نے اپنے اس شاہکار کے مکمل ہونے سے پہلے خود کشی کر لی تھی۔

کوئی نہیں جانتا کیوں۔ شیلا باغ کے مقام پر ریلوے اسٹیشن کو بعد میں تعمیر کیا گیا تھا۔ وہ لوگ جنھوں نے گذشتہ سال پاکستان کی جانب سے آسکر کے لیے نامزد کی گئی فلم، مور دیکھ رکھی ہے انھوں نے اس فلم کے کچھ مناظر میں اس اسٹیشن کو ضرور دیکھا ہوگا۔

کھوجک ٹنل کی تصویر 1976ء سے 2005ء تک پانچ روپے کے نوٹ پر چھپی ہوتی تھی،جس کے بعد یہ نوٹ بند کر دیا گیا شیلا باغ اسٹیشن کے ٹکٹ گھر پر آج بھی ماضی کے خوبصورت بورڈز لگے ہوئے ہیں سرنگ کی ایک پرانی تصویر میں سرنگ کے داخلی حصے پر دو ٹاورز دیکھے جا سکتے ہیں جو 1935 میں آئے زلزلے میں زمین بوس ہو گئے تھے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے انجینیئرنگ کے اس کمال کو تسلیم کیا اور 1976 میں اس کی تصویر پانچ روپے کے نوٹ پر چھاپ دی گئی جو 2005 تک یہ نوٹ چلتا رہا۔

نوٹ میں سرنگ کے مشرقی علاقے کو دکھایا گیا ہے اور یہ ایک یاد دہانی ہے کہ کس طرح کھوجک ٹنل نے ایک دور میں برصغیر کی اقتداری سیاست میں ایک اہم مرکز کے طور پر اپنا کردار ادا کیا تھا۔