کے ایل گابا

بھارتی مصنف

کے ایل گابا علامہ اقبال کی تحریک 1933ء میں مسلمان ہو گئے اور کنہیا لال گابا (کے ایل گابا) سے خالد لطیف گابا (کے ایل گابا) بن گئے۔[1]

کے ایل گابا
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1899ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور ،  برطانوی پنجاب   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1981ء (81–82 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ممبئی ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد لالہ ہرکشن لال   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ مصنف ،  سیاست دان ،  وکیل   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

تعارف

ترمیم

کے ایل گابا معروف قانون دان، سیاست دان اور ادیب تھے، 1899ء میں لاہور کے ایک ہندو صنعتکار لالہ ہرکشن لال گابا کے ہاں پیدا ہوئے۔ بار ایٹ لا کرنے کے بعد لاہور میں پریکٹس شروع کی۔ 1923ء میں آل انڈیا ٹریڈ یونین کانفرنس لاہور کی مجلس استقبالیہ کے چیئرمین مقرر ہوئے۔ اخبارات کے لیے مضامین لکھے اور اپنا ہفتہ وار ’’دی سنڈے ٹائمز‘‘ بھی جاری کیا۔ 1926ء میں لاہور کے صنعتی حلقے سے رائے بہادردھنپت رائے کے مقابلے میں پنجاب لیجسلیٹو کونسل کا الیکشن لڑا۔ 1933ء میں اسلام قبول کیا۔ مشہور ہے حکیم الامت علامہ محمد اقبال کی تجویز پر کنہیا لال (کے ایل) گابا سے خالد لطیف (کے ایل) گابا ہو گئے۔ یوں ان کے نام کا انگریزی مخفف اور صوتی و لفظی تاثر قائم رہا۔

سیاسی حالات

ترمیم

کے ایل گابا 1934ء میں مجلس احرار کی مجلس عاملہ کے رکن بنے، 1935ء میں وسطی پنجاب کی مسلم نشست سے انڈین لیجسلیٹو اسمبلی کے ارکان منتخب ہوئے۔ 1945ء میں آل انڈیا خاکسار پارلیمنٹری بورڈ کے چیرمین رہے۔ کے ایل گابا کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے، ان میں سے کئی اس وقت بیسٹ سیلر قرار پائیں۔ Passive Voices کے عنوان سے 1973ء میں لکھی گئی کتاب میں بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہندو اکثریت کی زیادتیوں کا ذکر ہے جس کا سید قاسم محمود نے ’’ مجبور آوازیں‘‘ کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا[2] بیرسٹر کے ایل گابا کے والد ہرکشن لال گابا ڈپٹی کمشنر ملتان کے دفتر میں کلرک تھے مگر دیکھتے ہی دیکھتے اتنی ترقی کے حکومت پنجاب کے وزیر تعلیم بن گئے وہ کروڑ پتی سرمایہ دار تھے ان کا دل اور دستر خوان وسیع تھا آخری زمانے میں انگریز حکمرانوں کے زیر عتاب آئے۔ ان کے بیٹے نے 1932ء میں اسلام قبول کیا انھیں ہندو بنانے کے لیے بڑا زور لگایا گیا مگر وہ اپنے آخری وقت تک اسلام پر قائم رہے اس کے بعد آپ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر ایک کتاب لکھی جس کا نام Prophet of Desert پیغمبر صحرا تھا اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں گابا نے اپنی خود نوشت Friend and Foes میں لکھا کہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سر ڈگلس ینگ نے کسی بات پر مجھ سے ناراض ہو گئے اور ایک جھوٹے مقدمے میں ملوث کر کے مجھے قید کر دیا روزنامہ زمیندار اور احسان اپیل کی کہ اس نومسلم کو رہائی دلوائی جائے مگر پورے ہندوستان میں ایک مسلمان بھی ضمانت نہ کرا سکا جس کی وجہ سے جیل میں رہے سیالکوٹ کے ایک ٹھیکیدار الحاج ملک سردار علی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی آپ نے حکم فرمایا سردار لاہور جا کر ایک نومسلم قیدی کی ضمانت دو اس نے میری سیرت پر کتاب لکھی جو مجھے بہت پسند ہے ملک سردار صبح عدالت میں پہنچے مگر ہندو ڈپٹی کمشنر مسٹر چندر آئی ایس ایس نے نے کہا کہ وہ بھاگ جائے گا مت ضمانت دوملک سردار نے کہا جس ہستی نے مجھے حکم دیا اس پر اگر میری جان بھی قربان ہو جائے تو مقام مسرت ہوگا ڈیڑھ لاکھ روپے کیا چیز ہے میں نہیں جانتا کہ خالد لطیف گابا کون سے میں نے اس کو کبھی دیکھا ہی نہیں مجھے تو خواب میں اس کا نام بتایا گیا ہے اس طرح دیڑھ لاکھ کی ضمانت کرائی[3]

تصانیف

ترمیم
  • نیو میگنا کارٹا
  • محبت اور قتل کے مشہور مقدمات
  • دی پرافٹ آف دی ڈیزرٹ
  • مجبور آوازیں
  • اپنے اور پرائے (خودنوشت)

حوالہ جات

ترمیم
  1. "اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان"۔ Nawaiwaqt۔ 17 مئی، 2017 
  2. "قائد کے حضور میں؛ عظیم رہنما سے ملنے والی شخصیات کے دل و دماغ پرنقش ہونے والے تاثرات کا احوال"۔ 11 ستمبر، 2016 
  3. دلچسپ حکایات،صفحہ صفحہ 15،ناشر اردو پبلک لائبریری لاہور، 2006۔