گراسٹن بیشن روڈ، نئی دہلی

گراسٹن بیشن روڈ، نئی دہلی (انگریزی: Garstin Bastion Road, New Delhi) یا جی بی روڈ دہلی میں واقع اجمیری گیٹ، دہلی یا لاہوری گیٹ، دہلی کے درمیان میں ایک بہت مصروف سڑک ہے۔ یہ ایک بڑا قحبہ خانہ بھی ہے جسے عموما ریڈ لائٹ ایریا کے نام سے جانا جاتا ہے۔[1] یہاں کئی متعدد منزلہ عمارتیں ہیں جن میں جسم فروشی کا کاروبار چلتا ہے جن میں تقریباً 1000 طوائف فحاشی کے اس کاروبار میں ملوث ہیں۔[2] سڑے کے ایک کنارے دو یا تین منزلہ کئی عمارتیں ہیں جن کی نچلی منزل پر دکانیں ہیں۔ رات کو جب دکانیں بند ہو جاتی ہیں تب سڑک کے کنارے موجود 20 عمارتوں کے 100 قحبہ خانے فعال ہو جاتے ہیں۔ یہ دہلی کا سب سے بڑا قحبہ خانہ ہے۔[3]


سوامی شردھانند مارگ
neighbourhood
سرکاری نام
جی بی روڈ is located in دہلی
جی بی روڈ
جی بی روڈ
متناسقات: 28°38′51″N 77°13′22″E / 28.64750°N 77.22278°E / 28.64750; 77.22278
بھارت کی ریاستیں اور یونین علاقےدہلی

1966ء میں سڑک کا نام تبدیل کر کے سوامی شردھانند مارگ کر دیا گیا مگر لوگ اب بھی اسے جی بی روڈ کے نام سے ہی جانتے ہیں۔

تاریخ

ترمیم

قدیم تاریخی دہلی فصیل بند شہر ہے جسے پرانی دہلی کہا جاتا ہے۔ شہر میں داخلہ کے لیے کئی دروازے اور برج بنائے گئے ہیں۔ ایسے ہی ایک برج کا نام ایسٹ انڈیا کمپنی کے برطانوی افسر کے نام پر رکھا گیا۔ جی بی روڈ قحبہ خانہ کی تاریخ مغلیہ دور سے شروع ہوتی ہے۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ اس دور میں یہاں پانچ کوٹھے تھے۔ جب برطانوی راج کا غلبہ ہوا تو انھوں نے پانچوں کوٹھوں کا اسی سڑک پر بسا دیا تاکہ وہ سب ایک ہی علاقہ میں رہیں۔ فی الحال یہاں اب 100 کوٹھے ہیں اور جی بی روڈ بھارت کے دیگر قحبہ خانوں کی طرح ایک برا قحبہ خانہ ہے۔ جی بی روڈ دہلی کے علاوہ کماٹھی پورہ (ممبئی)، سونا گاچھی (کولکاتا)، اتواری (ناگپور)، بدھوار پیٹھ (پونے) اور چتور بھج استھان (مظفر پور) ہیں۔[4][5][6][7][8][9][10]

بازار

ترمیم

جی پی روڈ پر مشینوں کا بازار ہے جہاں آٹو، ہارڈ ویئر کے اوزار ملتے ہیں اور دہلی کا سب سے بڑا آٹو اوزاروں کا بازار ہے۔ دن میں یہ ایک بھیڑ بھاڑ والا علاقہ رہتا ہے جہاں خریداروں، راہگیروں اور گاڑیوں کی بھرمار رہتی ہے۔

رات میں یہ سڑک جرم کا اڈا بن جاتی ہے۔ یہاں بلا ضرورت اوباش قسم کے لوگوں کا ڈیرہ رہتا ہے۔ چوری اور ڈکیتی عام بات ہے۔ راہگیروں کے موبائل، پیسے اور گھڑیاں چھیننے کے واقعات عام ہیں۔ 2012ء میں اسی سڑک پر ایک دردناک چادثہ اس وقت میڈیا کی سرخیوں میں آیا جب ایک مسافر کام سے گھر لوٹ رہا تھا تب ہی غنڈوں نے اسے پکڑ لیا اور مزاحمت کے بعد اس کا قتل کر دیا۔ ایک پولس والا جب اسے ان بدمعاشوں سے بچانے گیا تو انھوں نے اسے بھی موت کے گھات اتاردیا۔[11][12]

کتابیات

ترمیم
  • مینک آسٹن صوفی (2013)۔ Nobody Can Love You More: Life in Delhi's Red Light District۔ Penguin Group۔ ISBN 978-0-670-08414-2 

حوالہ جات

ترمیم
  1. Suraj۔ "Safety should you follow on GB road"۔ Delhi facts۔ 05 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  2. "During GB Road inspection, DCW finds hidden cellars inside brothels"۔ indianexpress.com۔ 28 دسمبر 2016 
  3. Sumnima Udas (4 اگست 2011)۔ "On patrol with top cop in New Delhi's red light district"۔ CNN۔ 19 اگست 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 فروری 2020 
  4. "PHOTOS: Veena Malik promotes new film at red light area" (slideshow)۔ The Indian Express 
  5. "Sex Workers in Chennai Want 'Red Light' Area"۔ The New Indian Express۔ 7 فروری 2014۔ 02 مئی 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 فروری 2020 
  6. R Ramasubramanian (فروری 7, 2014)۔ "Chennai sex workers demand separate work area"۔ India Today 
  7. Abdul Qadir (Oct 8, 2002)۔ "Muzaffarpur sex workers settle in Gaya"۔ The Times of India 
  8. Ekatha Ann John (Nov 4, 2013)۔ "In letter to Jayalalithaa, sex workers seek red-light area in Chennai"۔ The Times of India 
  9. "Four red light area women move HC against SDM's eviction order"۔ Indian Express۔ Jul 26, 2012 
  10. Santosh Singh (Dec 8, 2009)۔ "Sex workers daughter brings safety, education, insurance to red-light area"۔ Indian Express 
  11. "Cop stabbed to death while saving youth on GB Road"۔ Deccan Herald۔ 12 ستمبر 2012 
  12. "Cop killed on GB Road, another hurt"۔ The Times Of India۔ 12 ستمبر 2012۔ 26 جنوری 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 فروری 2020