گولاگ سوویت اتحاد کے تعزیری جبری مشقت کی خیمہ گاہوں (کیمپوں) کو چلانے والا حکومتی ادارہ تھا۔ گولاگ روسی نام Главное управление исправительно-трудовых лагерей и колоний، نقل حرفی: Glavnoye upravlyeniye ispravityel'no-trudovih lagyeryey i koloniy کا سرنامیہ ہے جس کا مطلب "اعلیٰ انتظامیہ برائے اصلاحی مشقتی خیمہ گاہان و نو آبادیات" ہے۔

"گولاگ: ایک تاریخ" (Gulag: A History) کی مصنفہ اینی ایپلبام (Anne Applebaum) کہتی ہیں کہ "یہ قومی سلامتی کے شعبے کی ایک شاخ تھی جو جبری مشقت کی خیمہ گاہیں اور متعلقہ حراستی و عبوری خیمہ گاہوں اور قید خانوں کا انتظام چلاتی تھی۔ حالانکہ ان خیمہ گاہوں میں تمام اقسام کے مجرم ہوتے تھے، لیکن گولاگ نظام کو بنیادی طور پر سیاسی قیدیوں اور سوویت ریاست کے سیاسی مخالفین کو دبانے کے عمل کے طور پر جانا جاتا ہے۔ حالانکہ اس نظام کے تحت لاکھوں افراد کو قید کیا گیا لیکن یہ نام مغرب میں اس وقت معروف ہوا جب الیکزیندر سولژینتسن (Aleksandr Solzhenitsyn) نے 1973ء میں اپنی کتاب "مجمع الجزائر گولاگ" (انگریزی: The Gulag Archipelago) لکھی، جس میں ملک بھر میں پھیلی ان خیمہ گاہوں کو "جزائر کی زنجیر" سے تشبیہ دی گئی تھی۔[1]

ایسی کم از کم 476 خیمہ گاہیں تھیں جن میں سینکڑوں سے ہزاروں تک قیدی رکھے جاتے تھے۔[2][3] سب سے زیادہ بدنام زمانہ وہ خیمہ گاہیں تھیں جو قطبی و نیم قطبی علاقوں میں قائم کی گئی تھیں۔ روس کے قطبی علاقوں میں نورلسک، وورکوتا، کولیما اور مگادان کے اہم صنعتی شہر انہی خیمہ گاہوں کے قیدیوں کے بنائے گئے شہر ہیں۔[4]

1929ء سے 1953ء کے دوران ایک کروڑ 40 لاکھ سے زائد افراد اس جبری نظام میں سے گذرے جبکہ مزید 60 سے 70 لاکھ کو جبراً روس کے دور دراز علاقوں میں وطن بدر کر دیا گیا۔[5] سوویت اعداد و شمار کے مطابق 1934ء سے 1953ء کے دوران 10 لاکھ 53 ہزار 829 افراد گولاگ کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھے،[6]

سینٹ پیٹرز برگ کی گولاگ یادگار

ان میں جبری مشقت کی نو آبادیات میں اور رہائی کے فوراً بعد مرنے والے افراد شامل نہیں بلکہ یہ تعداد صرف ان افراد پر مشتمل ہے جو خیمہ گاہوں میں بد ترین سلوک کا نشانہ بنے۔[7] اینی ایپلبام لکھتی ہیں کہ "دستاویزات اور آپ بیتیوں دونوں ظاہر کرتی ہیں کہ کئی خیمہ گاہوں میں یہ عام عمل تھا کہ خیمہ گاہوں میں موت کے اعداد و شمار کو کم رکھنے کے لیے جاں بہ لب افراد کو رہا کر دیا جاتا تھا۔[8] ان خیمہ گاہوں کی کل آبادی 5 لاکھ 10 ہزار 307 (1934ء میں) سے 17 لاکھ 27 ہزار 970 (1953ء میں) کے درمیان تھی۔[6]

گولاگ کے بیشتر مکین سیاسی قیدی نہيں تھے، البتہ سیاسی قیدیوں کی تعداد ہمیشہ خاصی رہی۔[9] بغیر کسی وجہ کے کام سے غیر حاضری، معمولی چوری یا حکومت مخالف لطائف جیسے معمولی جرائم پر بھی گولاگ خیمہ گاہوں میں قید کیا جا سکتا تھا۔[10] سیاسی قیدیوں کی نصف سے زائد تعداد کو بغیر کسی مقدمے کے گولاگ میں قید کر لیا گیا؛ سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ قید کی 26 لاکھ سے زئد سزائیں ایسی ہیں جن میں خفیہ پولیس نے، 1921ء سے 1953ء کے دوران، مقدمات کی تفتیش کی۔[11] 1953ء میں استالن کے مرنے کے بعد گولاگ کے حجم میں بہت تیزی سے کمی واقع ہوئی، لیکن گورباچوف کے عہد تک سوویت روس میں سیاسی قیدی بدستور موجود رہے۔[12]

آج ہر سال 30 اکتوبر کو روس میں مظالم کا نشانہ بننے والے افراد کا یادگاری دن منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ میں قائم گولاگ یادگاروں پر لوگوں کی بڑی تعداد آتی ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. Applebaum, Anne (2003) Gulag: A History. Doubleday. ISBN 0-7679-0056-1
  2. "Anne Applebaum — Inside the Gulag"۔ 15 اکتوبر 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 ستمبر 2009 
  3. Gulag The Columbia Electronic Encyclopedia, 6th ed.
  4. Gulag: a History of the Soviet Camps".
  5. Robert Conquest Victims of Stalinism: A Comment. Europe-Asia Studies, Vol. 49, No. 7 (Nov., 1997)
  6. ^ ا ب Getty, Rittersporn, Zemskov. Victims of the Soviet Penal System in the Pre-War Years: A First Approach on the Basis of Archival Evidence. The American Historical Review, Vol. 98, No. 4 (Oct., 1993), pp. 1017-1049, see also http://www.etext.org/Politics/Staljin/Staljin/articles/AHR/AHR.html آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ etext.org (Error: unknown archive URL) Politics Stalin, Mario Sousa
  7. Ellman, Michael. Soviet Repression Statistics: Some Comments Europe-Asia Studies. Vol 54, No. 7, 2002, 1151-1172
  8. Applebaum, Anne (2003) Gulag: A History. Doubleday. ISBN 0-7679-0056-1 pg 583
  9. "Repressions". Publicist.n1.by http://publicist.n1.by/articles/repressions/repressions_gulag2.html آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ publicist.n1.by (Error: unknown archive URL)
  10. "What Were Their Crimes?". Gulaghistory.org. http://gulaghistory.org/nps/onlineexhibit/stalin/crimes.php آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ gulaghistory.org (Error: unknown archive URL)
  11. "Repressions". Publicist.n1.by. http://publicist.n1.by/articles/repressions/repressions_organy1.html آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ publicist.n1.by (Error: unknown archive URL)
  12. "News Release: Forced labor camp artifacts from Soviet era on display at NWTC"۔ 28 اگست 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 ستمبر 2009 

بیرونی روابط ترمیم