گووا میں بچوں کا استحصال
گووا بھارت کی ریاست ہے جو ملک کے جنوب مغربی ساحل پر ایک ایسے علاقے میں واقع ہے جسے کونکن کہا جاتا۔ یہ ریاست ملک کے بیشتر حصوں کے بر عکس نہ تو برطانوی ہند کا حصہ تھی اور نہ ہی نوابی ریاستوں اور راجاؤں اور رجواڑوں کی طرح کسی معاہدے کے تحت انگریزی کے احکام تابع تھی یا ان سے دوستانہ تعلقات رکھتی تھی۔ اس کے بر عکس یہ ریاست پرتگالی تخت و تاج کے 1961ء تک ماتحت تھی، جب فوجی کار روائی کے بعد ریاست کو آزاد کرتے ہوئے اس کا بھارت میں انضمام کر دیا گیا۔ اگر چیکہ جدید دور میں گووا کا اپنے سابق پرتگالی فرمانرواؤں سے کچھ بھی تعلق نہیں ہے، تاہم آبادی کا محدود حصہ یا تو پرتگالی نژاد ہے یا پھر اہل ہند اور اہل پرتگال کے اختلاط کی وجہ سے ملا جلا مزاج اور تہذیب پیش کرتا ہے۔ ریاست میں تقریبًا 35 فیصد آبادی مسیحیوں کی ہے، جبکہ ہندو ہی اکثریت میں ہیں۔ یہاں کے لوگوں کے عام بول چال کی زبانیں مراٹھی اور کونکنی ہیں۔ تاہم پرتگالی زبان کا کچھ حد تک تعلیمی اداروں میں مطالعہ کیا جاتا ہے اور عمارات اور عام زندگی میں بھی پرتگالی تقافت کی کچھ چھلکیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ غالبًا اسی وجہ سے سال در سال گووا میں سیاحوں کی قابل لحاظ تعداد آتی ہے۔ اس آمد کی وجہ سے اور کچھ اور سماجی پس منظر کی وجہ سے ریاست میں جنسی بازار اور بچوں کا جنسی استحصال بھی شرمناک حد تک بڑھا ہوا ہے۔
اعداد و شمار
ترمیماپریل 2014ء اور مارچ 2017ءکے بیچ بچوں کے استحصال کے 707 واقعات پیش آئے۔ ان واقعات میں 289 متاثرین لڑکے تھے جبکہ 418 لڑکیاں تھیں۔ استحصال کے معاملوں میں سب سے زیادہ یعنی 183 معاملے جنسی استحصال سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ 162 جسمانی استحصال، 134 اغوا کے معاملے اور 228 دیگر استحصالی معاملات دیکھنے میں آئے۔ دیگر معاملات میں زبانی استحصال، خود کشی، گدا گری، قتل، انسانی بازار کاری، بچوں کی مزدوری، حوادث، ترک اولاد، منشیاتی استحصال، بچوں کی شادی اور گم شدگی کے معاملات ہیں۔ ماپوسا، پاناجی، قدیم گووا، پورووریم اور کالانگوٹے پولیس تھانوں میں بچوں سے استحصال سے متعلق 72 فی صد معاملات درج ہوئے ہیں۔[1]