گوگیرہ
گوگیرہ۔ گوگیرہ یونین کونسل ہے جو ضلع اوکاڑہ کا ایک بہت پرانا قصبہ ہے اس کا پورا نام بنگلہ گوگیرہ ہے جو 1857ء کی جنگِ آزادی میں اس علاقہ کا ہیڈ کوارٹر اور صدرمقام تھا۔ اسی وجہ سے اج اسے بنگلہ گوگیرہ کی بجاے صدر گوگیرہ بھی کہتے ہیں۔ آج بھی لارڈ برکلے کی قبر گوگیرہ میں موجود ہے جو اس وقت گوگیرہ کا کمشنر تھا لیکن کھرلوں کے ہاتھوں برٹش حکومت کو شکست ہوئی جس کا بدلہ لینے کے لیے انگریز حکومت نے ساہیوال اور اوکاڑہ کو الگ کر دیااور پھر منتگمری (ساہیوال )صدر نئے شہر منٹگمری (ساہیوال) میں منتقل کر دیا۔ یہ اوکاڑہ شہر سے 24 کلومیٹر فیصل آباد روڈ پر واقع ہے تحریر رانا مہر علی۔[1]
گوگیرہ بنگلہ | |
ملک | پاکستان |
بلندی | 166 میل (545 فٹ) |
منطقۂ وقت | پاکستان کا معیاری وقت (UTC+5) |
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ضلع اوکاڑہ کا ایک تاریخی قصبہ، اوکاڑہ سے فیصل آباد جانے والی سڑک پر 23 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے راوی کے کنارے پر واقع ہے۔ اسے مغل دورحکومت میں کھرل قبیلہ کی شاخ گوگیرہ نے آباد کیا تھا۔ یہاں مختلف اوقات پر کھرلوں، ہانسوں اور نکئی مثل کے سکھوں کا قبضہ رہا۔ مغلوں کے عہدآخر میں جب پنجاب طوائف الملوکی کا شکار تھا، تو یہاں کمر سنگھ نکئی قابض ہوا۔وہ 1780 ء میں اوپیرا کھرلوں کے ہاتھوں مسند والا کے قریب قتل ہوا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا وزیر سنگھ اس کا جانشین بنا۔ وہ بھڑوال کے نکئی سردار دل سنگھ کے ہاتھوں مرا۔ اس کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا وزیر سنگھ حاکم ہوا جو راجا رنجیت سنگھ کے قبضے تک علاقے کا جاگیردار رہا۔ جب پنجاب پر انگریزوں نے قبضہ کیا تو ابتداً اسے ضلعی صدر مقام بنایا گیا اور یہاں کچہری، ضلعی دفاتر اور بنگلہ وغیرہ کی عمارتیںتعمیر ہوئیں۔ جیل بھی بنی۔ جنگ آزادی 1857ء کے واقعات اور علاقے میں رائے احمد خاں کھرل کی بغاوت کی وجہ سے ضلعی صدر مقام گوگیرہ سے ختم کر کے منٹگمری (ساہیوال) منتقل کر دیا گیا۔ گوگیرہ کی اصل وجہ شہرت پنجاب کے مشہور مجاہد رائے احمد خاں کھرل شہید کی شخصیت ہے۔ انھوں نے انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے شہادت کا رُتبہ حاصل کیا تھا۔ رائے احمد خاں کھرل کا تعلق گائوں جھامرہ سے تھا وہ یہاں 1803ء میں پیدا ہوئے۔ انگریز دشمنی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران جب دلی میں قتل و غارت کی گئی اور انگریزوں نے اس بغاوت کو کسی حد تک دبا دیا، تو یہ آگ پنجاب میں بھڑک اُٹھی۔ جگہ جگہ بغاوت کے آثار دکھائی دینے لگے۔ اس وقت برکلے ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر تھا۔ اس نے کھرلوں اور فتیانوں کو اس وسیع پیمانے پر پکڑ پکڑ کر جیلوں میں بند کر دیا کہ گوگیرہ ایک بہت بڑ ی جیل میں بدل گیا۔ ادھر برکلے یہ کارروائی کر رہاتھا ،تو دوسری طرف احمد خان نے راوی پار جھامرہ رکھ میں بسنے والی برادریوں کو اکٹھا کر کے انگریزوں پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار کر لیا چنانچہ تمام مقامی سرداروں کی قیادت کرتے ہوئے رائے احمد خاں کا گھوڑ سوار دستہ رات کی تاریکی میں گوگیرہ جیل پر حملہ آور ہوا اور تمام قیدیوں کو چھڑالے گیا۔ احمد خان اور اس کے ساتھیوں کے علاوہ خود قیدی بھی بڑی بے جگری سے لڑے۔ اس لڑائی میں پونے چار سو انگریز سپاہی مارے گئے۔ اس واقعہ سے ا نگریز انتظامیہ میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ رائے احمد خان گوگیرہ جیل پر حملہ کے بعد اپنے ساتھیوں سمیت آس پاس کے جنگلوں میں جا چھپا۔ برکلے نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے احمد خان کے قریبی رشتہ داروں ، عزیزوں اور بہو بیٹیوں کو حراست میں لے لیا اور پیغام بھیجاکہ وہ اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کر دے ،ورنہ اس کے گھر والوں کو گولی مار دی جائے گی۔ اس پر رائے احمد خان کھرل پہلی مرتبہ گرفتار ہوا، مگر فتیانہ، جاٹوں اور وٹوئوں کی بڑھتی ہوئی مزاحمتی کارروائیوں کے پیش نظر احمد خان کو چھوڑ دیا گیا البتہ اس کی نقل و حرکت کو گوگیرہ بنگلہ کے علاقے تک محدود کر دیا گیا۔ اس دوران رائے احمد خان نے خفیہ طریقے سے بیک وقت حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کی، مگر افسوس کہ کمالیہ کا کھرل سردار سرفراز اور علاقے کا سکھ سردار نیہان سنگھ بیدی دونوں غداری کر گئے اور اس سارے منصوبے سے ڈپٹی کمشنر کو اطلاع کر دی۔ دراصل سردار سرفراز کی رائے احمد خان کھرل سے خاندانی دشمن تھی۔ اس مُخبری پر برکلے نے چاروں طرف اپنے قاصد دوڑائے۔ برکلے خود گھڑ سوار پولیس کی ایک پلٹن لے کر تیزی کے ساتھ راوی کے طرف بڑھا تاکہ رائے احمد خان کھرل کو راستے میں ہی روکا جاسکے۔ اس دوران حفاظتی تدابیر کے طور پر گوگیرہ سے سرکاری خزانہ، ریکارڈ اور سٹور تحصیل کی عمارت میں منتقل کر دیے گئے اورگوگیرہ میں انگریز فوجیوں نے مورچہ بندیاں کر لیں۔ کرنل پلٹین خود لاہور سے اپنی رجمنٹ یہاں لے آیا۔ اس کے ہمراہ توپیں بھی تھیں۔ رائے احمد خاں کھرل کی شہادت کے بعد جب برکلے اپنی فتح یاب فوج کے ساتھ خوشی خوشی جنگل عبور کر کے گوگیرہ چھائونی کی طرف جا رہا تھا کہ احمد خاں کے ساتھی مراد فتیانہ نے صرف تیس ساتھیوں کے ہمراہ اس کا تعاقب کیا اور کوڑے شاہ کے قریب راوی کے بیٹ میں چھاپہ مار کارروائی کرتے ہوئے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ برکلے کی تدفین بنگلہ گوگیرہ میں ہوئی ،جو اُن دنوں ضلعی ہیڈکوارٹر تھا۔ آج اس قبر کے کوئی آثار نہیں ملتے۔ ان واقعات کے بعد گوگیرہ سے ضلعی صدر دفاتر ختم کر دیے گئے اور نیا ضلع منٹگمری (ساہیوال) بنایا گیا، یوں آزادی کی تحریک میں اہم کردار ادا کرنے والے اس قصبہ کو پسماندگی کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ انگریزی دور میں چناب سے نہر نکالی گئی، تو اس کی ایک برانچ گوگیرہ کے قریب سے گزاری گئی، جو آج بھی گوگیرہ برانچ کہلاتی ہے۔ (کتاب ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبسhttp://wikimapia.org/4324542/Sadr-Gogera-Bangla-Gogera Sadr Gogera (Bangla Gogera)]