گوگیرہ بغاوت
رائے احمد خاں کھرل شہید اور کھرل خاندان کا کردار
بنگلہ گوگیرہ تحصیل و ضلع اوکاڑہ دریاے راوی کے قریب ایک قدیم قصبہ ہے۔ اس علاقہ میں کھرل قبیلہ کی ذیلی شاخ چوریڑہ کھرل بہت بڑی تعداد میں آباد ہے۔ چوریڑہ کھرل بہت ہی بہادر, دلیر, مہمان نواز اور ڈیرے دار لوگ ہیں جو صدیوں سے اپنے منفرد طرز حیات اور روایات کے ساتھ اس علاقہ میں آباد ہیں۔ راے احمد خاں کھرل شہید ویسے تو جھامرے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کی تحریک کو کامیاب کرنے میں سب سے زیادہ کردار چوریڑہ کھرل خاندان کا ہے۔ بنگلہ گوگیرہ جیل پر حملہ کرکے سینکڑوں قیدی انگریزوں کی قید سے رہا کرواے گئے۔ بنگلہ گوگیرہ سے 15 کلومیٹر دور ایک قدیم کوٹ ہے جس کا نام کوٹ راے نور احمد چوریڑہ ہے۔ راے نور احمد چوریڑہ قبیلے کا سردار اور محافظ سمجھا جاتا تھا۔ اپنے وقت کی بڑی بڑی طاقتوں کو چوریڑہ خاندان نے اپنے سامنے جھکا دیا تھا۔ غریبوں اور مظلوموں کے لیے راے نور احمد چوریڑہ اور اس کے تین بھائی راے بصارے خاں چوریڑہ, راے انور خاں چوریڑہ اور راے سجوار خاں چوریڑہ امید کی کرن اور ایک مظبوط ڈھال تھے۔ چوریڑہ خاندان نے اپنے اتحادی وٹووں, فتیانوں, بھٹیوں اور دیگر قبائل کے ساتھ مل کر انگرویزوں کے خلاف بغاوت کا الم بلند کرکے ان کے تسلط سے اپنے لوگوں کو آزاد کروایا . 1970 میں چوریڑہ خاندان سیاست میں آیا. راے میاں خاں کھرل 1970 میں ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے. 1970 سے لے کر اب تک اس علاقہ سے کھرل ایم این اے اور ایم پی اے منتخب ہو رہے ہیں۔ اس وقت چوریڑہ قبیلہ کے رہنماوں میں راے ذو الفقار علی چوریڑہ کھرل ایڈووکیٹ ہائیکورٹ,راے سکندر حیات خاں, راے فیصل میاں خاں, راے محمد شفیع ایڈووکیٹ, راے محمد ارشد خاں چوریڑہ, نوجوان لیڈر راے علی حیدر خاں چوریڑہ کھرل چیرمین RSF پاکستان و رہنماء پاکستان پیپلز پارٹی شامل ہیں۔ چوریڑہ قبیلہ کی اس علاقہ کے لیے قربانی اور جدوجہد ہمیشہ یاد رکھی
(جنگ آزادی کا گمنام ہیرو اور شیر پنجاب)
رائے احمد خاں کھرل (1776ء-1857ء) 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران میں نیلی بار کے علاقے میں مقامی قبیلوں کی برطانوی راج کے خلاف بغاوت (گوگیرہ بغاوت) کے رہنما اور سالار تھے۔ 21 ستمبر کو انگریزوں اور سکھوں کے فوجی دستوں نے گشکوریاں کے قریب 'نورے دی ڈل' کے مقام پر دورانِ نماز احمد خان پر حملہ کر دیا۔ احمد خان اور اس کے ساتھی بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ۔
رائے احمد خان كهرل ان حریت رہنماؤں میں شامل تھے جنھوں نے برصغیر پر قابض انگریز سامراج کی بالادستی کو کبھی تسلیم نہیں کیا تھا اور بالآخر ان کے خلاف لڑتے لڑتے اپنی جان تک دے ڈالی۔
رائے احمد خاں کھرل کا تعلق گاؤں جھامرہ سے تھا وہ یہاں 1803ء میں پیدا ہوئے۔ انگریز دشمنی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران میں جب دلی میں قتل و غارت کی گئی اور انگریزوں نے اس بغاوت کو کسی حد تک دبا دیا، تو یہ آگ پنجاب میں بھڑک اُٹھی۔ جگہ جگہ بغاوت کے آثار دکھائی دینے لگے۔ اس وقت برکلے ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر تھا۔ اس نے کھرلوں اور فتیانوں کو اس وسیع پیمانے پر پکڑ پکڑ کر جیلوں میں بند کر دیا کہ گوگیرہ ایک بہت بڑ ی جیل میں بدل گیا۔ ادھر برکلے یہ کارروائی کر رہاتھا ،تو دوسری طرف احمد خان نے راوی پار جھامرہ رکھ میں بسنے والی برادریوں کو اکٹھا کر کے انگریزوں پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار کر لیا چنانچہ تمام مقامی سرداروں کی قیادت کرتے ہوئے رائے احمد خاں کا گھوڑ سوار دستہ رات کی تاریکی میں گوگیرہ جیل پر حملہ آور ہوا اور تمام قیدیوں کو چھڑالے گیا۔ احمد خان اور اس کے ساتھیوں کے علاوہ خود قیدی بھی بڑی بے جگری سے لڑے۔ اس لڑائی میں پونے چار سو انگریز سپاہی مارے گئے۔ اس واقعہ سے ا نگریز انتظامیہ میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ رائے احمد خان گوگیرہ جیل پر حملہ کے بعد اپنے ساتھیوں سمیت آس پاس کے جنگلوں میں جا چھپا۔ برکلے نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے احمد خان کے قریبی رشتہ داروں ، عزیزوں اور بہو بیٹیوں کو حراست میں لے لیا اور پیغام بھیجاکہ وہ اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کر دے ،ورنہ اس کے گھر والوں کو گولی مار دی جائے گی۔ اس پر رائے احمد خان کھرل پہلی مرتبہ گرفتار ہوا، مگر فتیانہ، جاٹوں اور وٹوئوں کی بڑھتی ہوئی مزاحمتی کارروائیوں کے پیش نظر احمد خان کو چھوڑ دیا گیا البتہ اس کی نقل و حرکت کو گوگیرہ بنگلہ کے علاقے تک محدود کر دیا گیا۔ اس دوران میں رائے احمد خان نے خفیہ طریقے سے بیک وقت حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کی، مگر افسوس کہ کمالیہ کا کھرل سردار سرفراز اور علاقے کا سکھ سردار نیہان سنگھ بیدی دونوں غداری کر گئے اور اس سارے منصوبے سے ڈپٹی کمشنر کو اطلاع کر دی۔ دراصل سردار سرفراز کی رائے احمد خان کھرل سے خاندانی دشمن تھی۔ اس مُخبری پر برکلے نے چاروں طرف اپنے قاصد دوڑائے۔ برکلے خود گھڑ سوار پولیس کی ایک پلٹن لے کر تیزی کے ساتھ راوی کے طرف بڑھا تاکہ رائے احمد خان کھرل کو راستے میں ہی روکا جاسکے۔ اس دوران میں حفاظتی تدابیر کے طور پر گوگیرہ سے سرکاری خزانہ، ریکارڈ اور سٹور تحصیل کی عمارت میں منتقل کر دیے گئے اورگوگیرہ میں انگریز فوجیوں نے مورچہ بندیاں کر لیں۔ کرنل پلٹین خود لاہور سے اپنی رجمنٹ یہاں لے آیا۔ اس کے ہمراہ توپیں بھی تھیں۔ رائے احمد خاں کھرل کی شہادت کے بعد جب برکلے اپنی فتح یاب فوج کے ساتھ خوشی خوشی جنگل عبور کر کے گوگیرہ چھائونی کی طرف جا رہا تھا کہ احمد خاں کے ساتھی مراد فتیانہ نے صرف تیس ساتھیوں کے ہمراہ اس کا تعاقب کیا اور کوڑے شاہ کے قریب راوی کے بیٹ میں چھاپہ مار کارروائی کرتے ہوئے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ برکلے کی تدفین بنگلہ گوگیرہ میں ہوئی ،جو اُن دنوں ضلعی ہیڈکوارٹر تھا۔ آج اس قبر کے کوئی آثار نہیں ملتے۔
1857ء کی جنگ آزادی تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑ گئی ہے لیکن رائے احمد خان کھرل شہید کا غیرت مند کردار تاریخ میں ایک علامت کے طور پر ابھرا ہے۔ نامساعد حالات اور قلیل ترین وسائل ہونے کے باوجود انھوں نے انگریز سامراج کے خلاف بہادری دکھائی ۔