ہاؤس آف کامنز
دار العوام یا ہاؤس آف کامنز (انگریزی: House of Commons) برطانوی پارلیمنٹ کا وہ حصہ جس میں دستوری قوانین زیر بحث آتے اور پاس ہوتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل دار العوام کا اجلاس اس عالی شان عمارت میں ہوا کرتا تھا جو ہاؤس آف پارلیمنٹ کہلاتی ہے۔ دوران میں جنگ میں یہ عمارت حوائی حملے سے تباہ ہو گئی تو اسے ازسرنو پرانے نقشے کے مطابق تعمیر کیا گیا۔ بڑے کمرے کے وسط میں ایک سرے سے دوسرے تک کشادہ راستہ ہے جس کے دونوں جانب ارکان کے لیے نشستیں بنی ہوئی ہیں جو دیواروں کی طرف بلند ہوتی چلی گئی ہیں۔ راستے کے اختتام پر ایک چبوترا ہے جس پر سپیکر کی کرسی ہوتی ہے۔ اسے سپیکر اس لیے کہتے ہیں کہ ماضی میں اسے عوام کے حق میں تقریر کرنا پڑتی تھی۔
اس کے دائیں جانب کی نشستوں پر حامیان حکومت بیٹھتے ہیں۔ نشستوں کی پہلی قطار ٹریژری بنچ کہلاتی ہے۔ اس پر وزیر اعظم اور اس کی کیبنٹ کے وزرا بیٹھتے ہیں۔ اس قطار کے پیچھے کی نشستوں پر دوسرے وزیر بیٹھتے ہیں۔ میر مجلس کی بائیں طرف دوسری سیاسی جماعتوں کے ارکان بیٹھتے ہیں۔ جومخالف پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
پارلیمان کے اجلاس سے پہلے شاہ کی افتتاحیہ تقریر ہوتی ہے۔ اس تقریر کو وزیراعظم اور اس کے دیگر وزراء تیار کرتے ہیں اور یہ اولاً دار الامرا میں پڑھی جاتی ہے۔ جہاں شاہ اسے پڑھ کر سناتا ہے۔ اس میں حکومت کی حکمت عملی کا خاکہ درج ہوتا ہے۔ جب یہ تقریر دارالامرا اور دار العوام دونوں جگہ پڑھ دی جاتی ہے۔ اور ہر دو جگہ اس کی تائید ہوجاتی ہے تو پھر پارلیمان اپنا کام شروع کر دیتی ہے۔
جمہوریت کے لیے یہ ضروری ہے کہ ارکان کو وزرا سے سوالات کرنے اور حکومت کی پالیسی پر آزادانہ نکتہ چینی کرنے کی اجازت ہو۔ یہ طریقہ اختیار کرنے سے حزب اختلاف کے ارکان عوام کو باخبر کر دیتے ہیں کہ حکومت نے کس جگہ چوک یا غلطی کی ہے۔ علاوہ ازیں اس نکتہ چینی کے ذیرعے وزراء کو ان تلخ حقیقتوں سے متنبہ کر دیا جاتا ہے جو ان کی غفلت شعاری کی وجہ سے رونما ہوتی ہوں۔ متعلقہ وزیر سولات کا کافی اور تسلی بخش جواب دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اور اس کے جواب کی روشنی میں عوام صحیح صورت حال کے متعلق اپنی رائے قائم کرتے ہیں۔
معمولاً پارلیمان ہر پانچ سال کے بعد ختم کر دی جاتی ہے اور ازسر نو انتخابات عمل میں لائے جاتے ہیں۔ اگر اس مدت سے پہلے حکومت کو کسی اہم قانون منظور کرانے کے سلسلے میں شکست ہو جائے تو وزیر اعظم مندرجہ ذیل باتوں مین سے ایک بات کرے گا۔
1۔ وہ بادشاہ کو مشورہ دے گا کہ پارلیمان کو برطرف کر دیا جائے۔ اس صورت میں عام انتخابات کرائے جائیں گے۔
2۔ وہ بادشاہ کو مشورہ دے گا کہ مخالف پارٹی کے رہنما کو بلا کر وزارت بنانے کی ذمے داری سونپ دی جائے۔