ہواوے ٹیکنالوجیز کمپنی لمیٹڈ (/ˈhwɑːˌw/؛ آسان چینی: 华为; روایتی چینی: 華為; پینین: audio speaker iconHuáwéi) ایک چینی کثیر القومی کمپنی ہے جو مواصلاتی آلات اور صارفی الیکٹرانکس تیار کرتی ہے۔ کمپنی کا صدر دفتر شینزین میں واقع ہے۔

ہواوے ٹیکنالوجیز کمپنی لمیٹڈ
مقامی نام
华为技术有限公司
نجی کمپنی، ملازم-ملکیتی کمپنی
صنعتمواصلاتی آلہ
نیٹ ورکنگ آلہ
صارفی الیکٹرانکس
قیام1987؛ 37 برس قبل (1987)
صدر دفترشینزین، گوانگڈونگ، عوامی جمہوریہ چین
علاقہ خدمت
عالمگیر
کلیدی افراد
Liang Hua (بورڈ کے صدر نشین)
رین زینفی (سی ای او اور بانی)
منگ وانزو (نائب صدر، سی ایف او)
Zhou Daiqi (پارٹی کمیٹی سیکریٹری)
Guo Ping (Rotating chairman of the board)
Xu Zhijun (Rotating chairman of the Board)
Hu Houkun (Rotating chairman of the Board)
مصنوعاتموبائل اور بروڈبینڈ نیٹ ورک، مشاورتی اور انتظامی خدمات، ملٹی میڈیا ٹیکنالوجی، اسمارٹ فون، ٹیبلٹ کمپیوٹر، ڈونگل
آمدنیکم CN¥636.8 billion (US$99.9 billion) (2021)[1]
کم CN¥72.501 billion (US$11.08 billion) (2020)
Increase CN¥113.7 billion (US$17.83 billion) (2021)
کل اثاثےIncrease CN¥876.854 billion (US$134.01 billion) (2020)
کل ایکوئٹیIncrease CN¥330.408 billion (US$50.49 billion) (2020)
ملازمین کی تعداد
195,000 (2021)[2]
مالک کمپنیHuawei Investment & Holding[3]
ذیلی ادارےہائی سلیکون
آنر
ویب سائٹhuawei.com

پیپلز لبریشن آرمی کے ایک سابق ملٹری انجینئر، رین زینفی نے 1987ء میں ہواوے کی بنیاد رکھی۔ اپنے قیام کے وقت، ہواوے کی توجہ فون کے سوئچ بنانے پر مرکوز تھی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کا دائرہ کار مواصلاتی نیٹ ورک کی تعمیر، چین کے اندر اور باہر اداروں کو آپریشنل اور |مشاورتی خدمات اور آلات فراہم کرنے اور بازارِ صارفین کے لیے مواصلاتی آلات تیار کرنے تک پھیلتا گیا۔ ستمبر 2017ء میں ہواوے کے ملازمین کی تعداد 170,000 سے زائد تھی، جن میں سے 76,000 ملازمین تحقیق و تعمیر (R&D) میں مشغول تھے۔ ہواوے کے تحقیقی ادارے چین، ریاست ہائے متحدہ، کینیڈا، مملکت متحدہ، پاکستان، فن لینڈ، فرانس، بیلجیم، جرمنی، کولمبیا، سوئیڈن، آئرلینڈ، بھارت، روس، اسرائیل اور ترکی میں موجود ہیں۔ 2017ء کے مطابق، کمپنی تحقیق و تعمیر میں 13.8 بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکی ہے، جبکہ 2013ء میں یہ رقم 5 بلین امریکی ڈالر تھی۔

ہواوے اپنی مصنوعات اور خدمات 170 ممالک میں پیش کرتی ہے اور اس کے 1,500 سے زائد نیٹ ورکس کی رسائی دنیا کی ایک تہائی آبادی تک ہے۔ ہواوے نے 2012ء میں ایریکسن کو پیچھے چھوڑ دیا جو دنیا کی سب سے بڑی مواصلاتی آلات بنانے والی کمپنی تھی۔ 2018ء میں ہواوے نے ایپل کو پیچھے چھوڑتے ہوئے، سیمسنگ الکٹرونکس کے بعد اسمارٹ فون بنانے والی دنیا کی دوسری بڑی کمپنی کا مقام اپنے نام کر لیا۔ فورچیون گلوبل 500 کی فہرست میں اسے 72واں درجہ حاصل ہے۔ دسمبر 2018ء میں ہواوے کی رپورٹ کے مطابق اس کی سالانہ آمدن (2017ء کے مقابلے میں 21 فیصد اضافے کے ساتھ) 2018ء میں 108.5 بلین امریکی ڈالر تک بڑھ گئی ہے۔ کمپنی نے اپنی تاریخ میں پہلی بار 100 بلین امریکی ڈالر سالانہ آمدنی کا سنگِ میل عبور کیا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر کامیابی کے باوجود، ہواوے کو بعض الزامات کی وجہ سے چند خطوں میں مشکلات کا سامنا ہے، جن میں مرکزی کردار ریاست ہائے متحدہ کی حکومت کا ہے۔ ہواوے پر الزام ہے کہ اس کے مواصلاتی ڈھانچوں کے آلات میں ایسا پچھلا دروازہ ہو سکتا ہے جس کے ذریعے چین کے سرکاری ادارے ناجائز نگہداری کے قابل ہوسکیں (اس ضمن میں، خصوصاً، کمپنی کے بانی کا ماضی میں پیپلز لبریشن آرمی سے تعلق کا حوالہ دیا جاتا ہے)۔ سائبر سکیورٹی سے متعلق خدشات کے باعث 5 جی وائرلیس نیٹ ورک کی ڈویلپمنٹ میں ہواوے کو رکاوٹوں کا سامنا ہے اور حکومتی اداروں کی طرف سے کمپنی سے آلات کی خریداری اور ہواوے یا اس کی ساتھی چینی مواصلاتی کمپنی زیڈ ٹی ای کی تیار کردہ مصنوعات استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ کئی بڑی امریکی وائرلیس نیٹ ورک فراہم کنندہ کمپنیوں، بشمول خوردہ فروش بیسٹ بائے نے اوائل-2018ء میں ہواوے کی مصنوعات ہٹانا شروع کردی ہیں اور اسے مذکورہ مارکیٹوں سے باہر کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس کی مصنوعات دیگر کمپنیوں کی مصنوعات سے بڑھ کر سائبر سکیورٹی کا خطرہ نہیں اور جاسوسی کے امریکی الزامات کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

یکم دسمبر 2018ء کو، ریاست ہائے متحدہ کی درخواست پر کینیڈا میں ہواوے کی نائب صدر نشین اور چیف فنانشل افسر منگ وانزو کو گرفتار کر لیا گیا[4] اور ان پر ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. "China's Huawei Says 2021 Sales Down, Profit Up"۔ usnews.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اپریل 2022 
  2. "Huawei Annual Report 2021"۔ Huawei۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اکتوبر 2022 
  3. Raymond Zhong (25 April 2019)۔ "Who Owns Huawei? The Company Tried to Explain. It Got Complicated."۔ The New York Times۔ 23 مئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 مئی 2019 
  4. ایوا اونٹیوروس (23 دسمبر 2018ء)۔ "ہواوے بحران: امریکہ اور چین کے درمیان نئی سرد جنگ کا آغاز؟"۔ بی بی سی اردو