ہیومن میٹا نیومو وائرس

ہیومن میٹا نیومو وائرس (انگریزی: Human Metapneumovirus) ایک آر این اے وائرس ہے جو پھیپھڑوں اور سانس کی نالی کو متاثر کرتا ہے۔ یہ وائرس بنیادی طور پر بچوں، بزرگوں اور کمزور قوت مدافعت کے حامل افراد میں سانس کی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔[1] ہیومن میٹا نیومو وائرس ایک ایسا وائرس ہے جو عام طور پر سردی اور فلو جیسی علامات پیدا کرتا ہے۔ یہ وائرس زیادہ تر اوپری سانس کے نظام کو متاثر کرتا ہے لیکن بعض اوقات یہ نچلے سانس کے نظام میں انفیکشن کا باعث بن سکتا ہے۔[2]

ہیومن میٹا نیومو وائرس (ایچ ایم پی وی) ایک ایسا وائرس ہے جو انسان کے سانس کے نظام (یعنی ناک، گلے اور پھیپھڑوں) کو متاثر کرتا ہے۔ یہ وائرس عام طور پر نزلہ، زکام اور فلو جیسی علامات پیدا کرتا ہے، لیکن بعض اوقات یہ سنگین پیچیدگیاں جیسے نمونیا کا باعث بھی بن سکتا ہے، خصوصاً شیر خوار بچوں، بزرگ افراد اور وہ لوگ جن کا مدافعتی نظام کمزور ہو۔ اگرچہ یہ وائرس نیا نہیں ہے، لیکن حالیہ عرصے میں شمالی چین میں خاص طور پر چودہ سال سے کم عمر بچوں میں اس کے کیسوں میں اضافہ ہوا ہے، جس کی بنا پر اس پر عالمی سطح پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔ ایچ ایم پی وی کو سب سے پہلے سنہ 2001ء میں دریافت کیا گیا۔ یہ ایک آر این اے وائرس ہے جس میں ایک ہی سیکوئنس ہوتا ہے اور یہ سانس کے ذریعے خارج ہونے والی چھوٹی بوندوں یا آلودہ سطحوں کو چھونے سے پھیلتا ہے۔ اس وائرس کا پھیلاؤ متعدد ممالک میں، بشمول برطانیہ، پہلے بھی ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔[3]

دریافت اور تاریخ

ترمیم

ہیومن میٹا نیومو وائرس کو پہلی بار 2001ء میں ڈچ محققین نے دریافت کیا۔ یہ وائرس پیرامیکسوویریڈی خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور میٹا نیومو وائرس جینس میں شامل ہے۔[4]

علامات

ترمیم

ایچ ایم پی وی کی علامات عام زکام اور کووڈ-19 سے ملتی جلتی ہیں، جن میں شامل ہیں:

  • کھانسی
  • بخار
  • ناک بہنا
  • سانس لینے میں دشواری
  • گلے کی سوزش

منتقلی کا طریقہ

ترمیم

یہ وائرس بنیادی طور پر ان ننھی بوندوں کے ذریعے پھیلتا ہے جو کھانسی اور چھینک کے دوران خارج ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ، متاثرہ افراد سے قریبی تعلق یا آلودہ سطحوں کے ذریعے بھی منتقلی ہو سکتی ہے۔[4]

تشخیص اور علاج

ترمیم

ایچ ایم پی وی کی تشخیص کے لیے مخصوص ٹیسٹ کٹس دستیاب ہیں۔ فی الحال اس وائرس کے لیے کوئی ویکسین موجود نہیں ہے، لہذا علاج علامات کے مطابق کیا جاتا ہے، جیسے بخار کم کرنے والی ادویات اور مناسب آرام۔

پاکستان میں صورت حال

ترمیم

قومی ادارۂ صحت اسلام آباد کے مطابق، ایچ ایم پی وی کی پاکستان میں پہلی دفعہ تشخیص 2001ء میں ہوئی تھی۔ 2015ء میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) اسلام آباد میں اس وائرس کے 21 کیسز سامنے آئے تھے۔ حالیہ دنوں میں چین میں اس وائرس کے کیسز میں اضافے کے پیش نظر، پاکستان میں بھی اس کی نگرانی کی جا رہی ہے۔[5]

عالمی صورت حال

ترمیم

حالیہ دنوں میں چین میں ایچ ایم پی وی کے کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس کے باعث عالمی ادارۂ صحت اور دیگر صحتی ادارے اس کی نگرانی کر رہے ہیں۔[6]

احتیاطی تدابیر

ترمیم

چونکہ اس وائرس کی کوئی ویکسین دستیاب نہیں ہے، اس لیے ماہرین عوام کو ماسک پہننے، ہاتھ دھونے، اور ہجوم سے بچنے کی ہدایت کر رہے ہیں تاکہ اس کی منتقلی کو روکا جا سکے۔[4]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "ہیومن میٹا نیومو وائرس - اردو نیوز"۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-04
  2. "چین میں تیزی سے پھیلنے والا وائرس پہلے سے پاکستان میں موجود ہے، قومی ادارہ صحت"۔ ڈان نیوز اردو۔ 4 جنوری 2025۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-05
  3. "میٹا نیومو وائرس کی حقیقت جانئے، کیا کووڈ جیسا ماحول دوبارہ بن رہا ہے؟"۔ العربیہ اردو۔ 6 جنوری 2025۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-06
  4. ^ ا ب پ "ہیومن میٹا نیومو وائرس - ڈیلی پاکستان"۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-04
  5. "چین میں پھیلنے والا ہیومن میٹا نیومو وائرس 2 دہائیوں سے پاکستان میں موجود ہے - جنگ نیوز"۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-04
  6. "کورونا کے پانچ سال بعد چین میں 'نمونیا جیسی' علامات والا نیا وائرس؟ - اردو نیوز"۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-04