ہیٹی میں اسلام
ہیٹی میں تقریبا 3000 مسلمان آباد ہیں جو کل آبادی کا 0.04 فیصد ہیں لیکن مقامی مسلمان 5000 کی تعداد کا دعوی کرتے ہیں ہیٹی میں اسلامی تنظیمات کے ساتھ ساتھ مسجد بلال اور کیپ ہیٹین اسلامی مرکز موجود ہے جہاں اسلامی تعلیمات اور پنجگانہ نماز ادا کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ میرانگو میں ایک اور مسجد اور پورٹ او پرنس میں ایک اسلامی مرکز قائم ہے۔اقوام متحدہ کے ستریکرن ہیٹی میں مشن کے دوران پاکستان آرمی آفیسر نے اپنے والد کے نام پر گوناویز میں مسجد الحق تعمیر کروائی۔ 2010 کے زلزلے کے بعد متعدد اسلامی تنظیمات نے امداد کی غرض سے ہیٹی کا دورہ کیا ان تنظیمات کے سلوک کا مقامی لوگوں پر بہت اثر ہوا۔ جس کے نتیجے میں ٹرینیڈاڈ کے مفتی شہید علوم نے ملک میں واحد دارلعلوم کھولا جہاں اسلامی تعلیمات دی جاتی تھیں۔ اس کا مقصد مسلمانوں کو اسلام کے مستند اصول سکھانا ہیں۔
ہیٹی میں اسلام کی تاریخ
ترمیمجزیرہ ہسپانیولا پر مسلمان کی تاریخ غلاموں کی آمد سے شروع ہوئی۔ اگرچہ وقت کے ساتھ بہت سے غلاموں اسلام کو چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، ان کے اسلامی ورثے میں ہیٹی کی مقامی ثقافت کا بھی اثر موجود ہے۔ اس کے علاوہ ڈکی باکومین جسے ہیٹی میں انقلاب کا بانی سمجھا جاتا ہے وہ بھی مسلمان تھا۔ 20 ویں صدی میں مسلمان عرب ممالک سے ہجرت کرکے آئے اور دیگر امریکن ممالک کی طرح ہیٹی میں آ کر آباد ہو گئے۔
کہا جاتا ہے کہ 1920 میں مسلمان سب سے پہلے مراکش کے گاؤں فیس سے ایک شخص 19 خاندانوں کے ساتھ آکر یہاں آباد ہوا۔ آج مراکشی لوگ مقامی ہیٹین کے بعد دوسرے درجے پر اکثریت میں ہیں۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ مسلمان 1985 تک مالی طور پر اتنے کمزور تھے ایک مسجد تک نہیں بنا سکے اس کے بعد انھوں نے ایک گھر پر مینار بنا اس کو مسجد میں تبدیل کر دیا۔ 2000 میں فانامی لوناس چیمبر آف ڈپٹیز میں منتخب ہونے والے پہلے مسلمان بن گئے۔
ہیٹی کی 100 فیصد مسلم آبادی سنی ہے۔