یامین بن عمیر
حضرت یامین بن عمیر ؓ اہل کتاب صحابی رسول تھے۔
صحابی | |
---|---|
یامین بن عمیر | |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | يامين بن عُمَير بن كعب بن عمرو بن جحاش |
وجہ وفات | طبعی موت |
رہائش | مدینہ منورہ |
شہریت | عہد نبوی |
مذہب | اسلام |
رشتے دار | ابن عم عمرو بن جحاش |
عملی زندگی | |
طبقہ | صحابہ |
نسب | بنو نضیر |
پیشہ | محدث |
شعبۂ عمل | روایت حدیث |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوہ تبوک |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیمیامین نام [1]، باپ کے نام میں تھوڑا سااختلاف ہے اور بعضوں نے باپ کا نام بھی یامین ہی لکھا ہے؛ مگرعام ارباب رجال کا رحجان عمیر ہی کی طرف ہے [2] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ عنہ نے یامین بن یامین اور یامین بن حمیر کودوشمار کیا ہے اور دونوں کا ترجمہ الگ الگ لکھا ہے؛ مگرصاحب اسدالغابہ اور صاحب استیعاب نے دونوں کوایک شمار کرکے ایک ترجمہ لکھا ہے) پورا سلسلہ نسب یہ ہے، یامین بن عمیر بن کعب بن عمرو بن حجاش، بنونضیر سے نسبی تعلق تھا۔
اسلام
ترمیمیہودِ مدینہ کی مسلسل سازشوں، شرارتوں، کیادیوں اور منافقتوں کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عفوودرگذر سے کام لیتے تھے؛ مگرجب پانی سرسے اونچا ہو گیا توان کی یکے بعد دیگرے سرزنش شروع کردی گئی، بنی قینقاع کے بعد جب بنونضیر نے بدعہدی کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش شروع کردی توان کومدینہ چھوڑ دینے کا حکم دیا گیا، اُمید تھی کہ اس سزا کے بعد وہ اپنے گذشتہ اعمال سے تائب ہوکر غلامانِ نبی میں شامل ہوجائیں گے؛ مگران کی فطرتوں نے جس طرح پہلے روز قبولِ حق سے گریز کیا تھا؛ اسی طرح آخروقت تک گریز کرتے رہے؛ لیکن ان کج فطرتوں میں کچھ نیک فطرت بھی تھے جن کے دل میں قبولِ حق کی کسی قدر صلاحیت باقی تھی؛ انھوں نے جب دیکھ لیا کہ اسلام کی صداقت کے لیے کسی مزید ثبوت کی ضرورت باقی نہیں رہی توفوراً اسلام قبول کر لیا اور اپنی قوم کا ساتھ چھوڑ دیا کہ وہ دیدہ ودانستہ راہِ راست سے بھاگ رہے ہیں (ابن الہیبان نے یہود مدینہ کووصیت کے طور پرلکھا تھا کہ عنقریب ایک نبی مدینہ میں ہجرت کرکے آئے گا؛ اگرتم نے اس کی اتباع نہ کیا تو بہت سے مصائب پیش آئیں گے، جس میں ایک جلاوطنی ہے) ان ہی مسلمان ہونے والوں میں حضرت یامین رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ [3][4]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن سے بدلہ
ترمیمعمروبن حجاش، یامین رضی اللہ عنہ کا چچازاد بھائی تھا، اس نے سازش کی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودھوکے سے ایک مکان کے نیچے بلایا جائے اور اُوپر سے کوئی وزنی چیز گراکرکام تمام کر دیا جائے (معاذاللہ) لیکن کامیاب نہ ہو سکے، یامین رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یامین رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اپنے چچازاد بھائی کی حرکت دیکھتے ہو، وہ دھوکے سے مجھے قتل کردینا چاہتا تھا؛ مگراللہ تعالیٰ نے جبرئیل کے ذریعہ مجھے اس کے ارادہ سے آگاہ کر دیا، یامین رضی اللہ عنہ فوراً اپنی جگہ سے اُٹھے اور اس دشمنِ رسول کی فکر میں لگ گئے اور ایک روز موقع پاکر اس کوواصلِ جہنم کر دیا۔ [5]
غزوۂ تبوک میں مدد
ترمیمغزوۂ تبوک پیش آیا توچند صحابہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور سواریوں کی درخواست کی؛ مگراتفاق سے اس وقت سواریاں موجود نہ تھیں اس لیے معذوری ظاہر کی وہ لوگ بچشم پرنم مایوس واپس گئے، قرآن نے ان کی مایوسی اور رنج وملال کا نقشہ کھینچا ہے: وَلَاعَلَى الَّذِينَ إِذَامَاأَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَاأَجِدُ مَاأَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوْا وَأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّايَجِدُوا مَايُنْفِقُونَ۔ [6] ترجمہ:جس وقت وہ آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ ان کوکوئی سواری دے دیں اور آپ ان سے کہہ دیتے ہیں کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں جس پرمیں تم کوسوار کردوں تووہ ناکام اس حالت میں واپس چلے جاتے ہیں کہ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے ہیں، اس غم میں کہ افسوس ان کوخرچ کرنے کوکچھ بھی میسر نہیں۔ ان ہی میں حضرت ابولیلیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ بھی تھے، جنھیں لڑائی میں شریک نہ ہوسکنے کا بیحد افسوس تھا، یہ رو رہے تھے کہ یامین رضی اللہ عنہ کااُدھر سے گذر ہوا؛ انھوں نے رونے کی وجہ دریافت کی توانھوں نے سارا قصہ کہہ سنایا، حضرت یامین رضی اللہ عنہ نے فوراً دوسواریاں اور کچھ سامانِ سفر پیش کیا اور وہ دونوں غزوہ میں شریک ہوئے (بالکل یہی واقعہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ذکوان بن یامین کے تذکرے میں بھی لکھا ہے؛ لیکن دونوں واقعے ایک ہی معلوم ہوتے ہیں، اس لیے کہ دوسرے تمام ارباب رجال وسیر نے اس واقعہ کوحضرت یامین رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا ہے؛ چونکہ حضرت یامین رضی اللہ عنہ کے نام اور ان کے باپ کے نام میں بڑا اختلاف ہے، اس لیے یہ واقعہ کئی ناموں کی طرف منسوب ہو گیا ہے؛ چنانچہ تجرید نے آپ کا نام یاسربن یامین لکھا ہے اور سلسلۂ نسب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ذکوان حضرت یامین رضی اللہ عنہ کے بیٹے تھے، اس لیے ہو سکتا ہے کہ واقعہ کے وقت وہ بھی موجود رہے ہوں اور راوی نے اُن کے طرف بھی اسی واقعہ کومنسوب کر دیا ہو)۔[7]
وفات
ترمیموفات اور زندگی کے دوسرے واقعات اور حالات کے بارے میں ارباب سیر خاموش ہیں۔
فضائل
ترمیمحافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: وَھُوَ مِن کِبَارِ الصَّحَابَۃِ۔ ترجمہ:آپ کا شمار کبار صحابہ میں تھا۔ [8] حافظ نے اصابہ کی اس آیت کا منشائے نزول یامین بن یامین کولکھا ہے؛ مگرجیسا کہ اوپر اسدالغابہ کے حوالہ سے لکھا جاچکا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی ہیں) جن لوگوں کے بارے میں یہ آیت: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ۔ [9] ترجمہ: اے اہلِ ایمان اللہ اور اس کے رسول پرایمان لاؤ۔ نازل ہوئی ان میں ایک حضرت یامین رضی اللہ عنہ بھی تھے۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ (اسدالغابہ:5/59)
- ↑ ((استیعاب:2/636)
- ↑ (اسدالغابہ:5/99)
- ↑ بنيامين,المعاني آرکائیو شدہ 2018-08-28 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ (اصابہ:3/649)
- ↑ (التوبۃ:92)
- ↑ تفسير البغوي,سورة النساء,آية136,الحسين بن مسعود البغوي,دار طيبة. آرکائیو شدہ 2018-03-18 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ (استیعاب:2/636،
- ↑ (النساء:136)