حضرت یحییٰ بن یمانؒ کا شمار تبع تابعین میں ہوتا ہے۔

حضرت یحییٰ بن یمانؒ
معلومات شخصیت
مقام پیدائش کوفہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 805ء  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کوفہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش کوفہ  ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ ہشام بن عروہ،  اسماعیل بن ابی خالد  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص ابو کریب  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب ترمیم

یحییٰ نام، ابو زکریا کنیت اور والد کانام یمان تھا [1]عجلی خاندانی نسبت ہے ۔ [2]

ولادت ترمیم

خود اپنے بیان کے مطابق 117ھ میں پیدا ہوئے۔ [3]

فضل وکمال ترمیم

علمی اعتبار سے اکابر حفاظ حدیث اورممتاز تبع تابعین میں تھے،حدیث کے علاوہ فقہ اور علوم قرآن میں بھی بلند مرتبہ حاصل تھا،عبادت وریاضت ،سادگی وتواضع اورذہانت وفطانت کا پیکر مجسم تھے،حافظ ذہبی "الحافظ الصدوق" لکھتے ہیں۔ [4]

قرآن ترمیم

ابن یمان کو قرأت قرآن میں کامل دستگاہ حاصل تھی،اس کی تعلیم انھوں نے حمزہ بن جلیب الزیات 80ھ،158ھ سے حاصل کی تھی [5] جو اپنے عہد میں علم قرأت کے ماہر اورامام تسلیم کیے جاتے تھے،ان کا شمار قراء سبعہ میں ہوتا ہے۔

حدیث ترمیم

اگرچہ ان کے پایۂ حدیث پر علما نے کافی جرح کی ہے،تاہم یہ حقیقت ہے کہ اس فن میں وہ کافی دسترس رکھتے تھے،اگرچہ ان کے حافظہ میں کوئی ضعف تھا( جیسا کہ ذکر کیا جاتا ہے) تو وہ بھی عمر کے آخری حصہ میں اور کچھ خارجی اسباب کی بنا پر پیدا ہوا تھا، اس کی تفصیل آئندہ سطور میں آرہی ہے،حدیث میں انھوں نے ہشام ابن عروہ، سلیمان الاعمش،اسماعیل بن ابی خالد،معمر بن راشد منہال بن حلیفہ،حمزہ بن حبیب الزیات اورسفیان ثوری، جیسے جلیل القدر علما سے استفادہ کیا تھا۔ [6]

تلامذہ ترمیم

ابن یمان نے اپنے وطنِ کوفہ کے علاوہ بغداد میں بھی حدیث کا چشمہ جاری کیا تھا،جس سے فیضیاب ہونے والوں میں محمد بن عیسیٰ الطباعی،یحییٰ بن معین حسن بن عرفہ، محمد بن نمیر، داؤد بن یحییٰ بن یمان، ابو ہشام الرفاعی،اسحاق بن ابراہیم بن حبیب،علی بن حرب الطائی کے نام لائق ذکر ہیں۔ [7]

جرح و تعدیل ترمیم

ان کی ثقاہت وعدالت پر کافی کلام کیا گیا ہے،تمام بیانات کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع میں ابن یمان کی صداقت مسلم تھی،لیکن پھر مرض فالج میں مبتلا ہوجانے کے بعد ان کے ذہن و دماغ کی پہلے والی کیفیت باقی نہیں رہ گئی تھی، اس لیے روایت حدیث میں تشابہ اوراختلاط پیدا ہونے لگا، بعض علما کا یہ بھی خیال ہے کہ ان کا حافظہ جتنا زیادہ تیز تھا، ویسا ہی وہ سریع النسیان بھی تھے، اوراس سے بلا شبہ راوی کا پایۂ تثبت واتقان مجروح ہوتا ہے،ابن مدینی کا بیان ہے "صدوق فلج تفغیر حفظہ"[8]یعنی وہ صدوق ہیں لیکن فالج زدہ ہونے کے بعد ان کے حافظہ کی کیفیت بدل گئی تھی۔ علامہ ابن سعد رقمطراز ہیں: کان کثیرا الحدیث لا یحج بہ اذا خولف [9] وہ کثیر الحدیث تھے لیکن جب ان کی روایت کسی دوسری روایت سے مختلف ہوتو وہ لائق حجت نہیں۔ یعقوب بن شیبہ کا قول ہے: وکان صدوقاً کثیر الحدیث وانما انکر علیہ اصحابنا کثرۃ الغلط ولیس بحجۃ اذا خولف [10] وہ صدوق اورکثیر الحدیث تھے،ہمارے بعض احباب نے ان کو ناپسند کیا ہے وہ بکثرت غلطیاں بھی کرتے تھے،اس لیے مخالفت کی صورت میں قابل حجت نہیں۔ ان تمام آراء سے ابن یمان کی صداقت وعدالت کی بین شہادت تو ملتی ہے لیکن ساتھ ہی کثرتِ خطا اورتغیر حفظ کا بھی پتہ چلتا ہے،لیکن جیسا کہ اوپر مذکور ہوا یہ ضعف ونقص آخر عمر میں فالج کے ناگہانی حادثہ کا نتیجہ تھا ورنہ حاشا کذبِ عمد کو اس میں کوئی دخل نہ تھا، اس کی تائید ابن عدی کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ: وھو فی نفسہ لا یتعمد الکذب الا انہ یخطئی ویشبہ علیہ [11] وہ فی الحقیقت کذب عمد کا ارتکاب نہ کرتے تھے؛بلکہ تشابہ وغلطی ہوجایا کرتی تھی۔ علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ امام بخاریؒ کے سوا محدثین کی ایک بڑی جماعت نے ان سے روایت کی تخریج کی ہے [12] عجلی کا بیان ہے: کان من کبار اصحاب الثوری وکان ثقۃ جائزاً الحدیث متعبداً معروفاً بالحدیث صدوقاً الا انہ فلج فتغیر حفظہ [13] وہ امام سفیان ثوری کے ثقہ کبار تلامذہ میں تھے، علاوہ ازیں جائزالحدیث عبادت گزار اورصدوق تھے،الا یہ کہ فالج زدہ ہونے کے بعد قوت حافظ میں کچھ تغیر ہو گیا تھا۔

قوتِ حافظہ ترمیم

ان کا حافظہ بہت قوی تھا،اس کا پورا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ امام وکیع جو اپنی غیر معمولی قوت حفظ کی بنا پر عدیم النظیر تھے،بیان کرتے ہیں: ماکان احد من اصحابنا احفظ للحدیث من یحیی بن الیمان کان یحفظ فی المجلس الواحدۃ خمسمائۃ حدیث [14] ہمارے ساتھیوں میں حدیث کا حافظہ یحییٰ بن الیمان سے بڑا کوئی نہ تھا،وہ ایک مجلس میں پانچ سو حدیثیں یاد کرلیتے تھے۔ خود انہی کا بیان ہے کہ میں نے تفسیر کے باب میں سفیان ثوریؒ سے چار ہزار حدیثیں زبانی یاد کی تھیں۔ [15] محمد بن عمار کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمار کے مفلوج ہوجانے کے بعد ان سے سماع کیا تھا، وہ کسی کتاب سے نہیں ؛بلکہ اپنے حافظہ کی بنیاد پر ہم سے روایت بیان کرتے تھے۔ [16]

عبادت ترمیم

زیورِ علم کے ساتھ،دولتِ عمل سے بھی مالا مال تھے، علامہ ذہبی رقمطراز ہیں کہ"وکان من العلماء العابدین" [17] حتیٰ کہ دنیا سے بے تعلقی اورکثرتِ ریاضت کی بنا پر ابن عیاش نے انھیں راھب تک کہا ہے۔ [18]

سادگی ترمیم

ان کی زندگی انتہائی سادہ اورمتواضع تھی،بشر بن حارث عینی شاہد ہیں کہ ایک مرتبہ میں یحییٰ بن یمان کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا میں نے دیکھا کہ ان کے جبہ میں بڑی کثرت سے پیوند لگے ہوئے تھے۔ [19] عجلی کا قول ہے وکان فقیراً صبوراً [20]

وفات ترمیم

ہارون الرشید کے ایامِ خلافت میں رجب 189ھ میں بمقام کوفہ عالمِ بقا کو رحلت فرمائی۔ [21]

حوالہ جات ترمیم

  1. (طبقات ابن سعد:6/272)
  2. (اللباب فی الانساب:3/124)
  3. (تاریخ بغداد:14:121)
  4. (تذکرۃ الحفاظ الذہبی:1/260)
  5. (ایضاً)
  6. (تہذیب التہذیب:11/306)
  7. (تاریخ بغداد:14/120)
  8. (میزان الاعتدال:3/20،والعبر فی خبر من غبر:1/304)
  9. (خلاصہ تہذیب الکمال:429،وتہذیب الکمال:11/307)
  10. (میزان الاعتدال:3/307)
  11. (تذکرہ:1/26)
  12. (تہذیب التہذیب:11/307)
  13. (تہذیب التہذیب:11/307)
  14. (العبر فی خبر من غبر:1/304،ومیزان الاعتدال:3/307)
  15. (ایضاً)
  16. (تاریخ بغداد:14/122)
  17. (تذکرۃ الحفاظ:1/260)
  18. (تہذیب التہذیب:11/306)
  19. (تاریخ بغداد:14/121)
  20. (تہذیب التہذیب:11/307)
  21. (طبقات ابن سعد:6/272)