حضرت یزید ؓبن شجرہ رہاوی صحابی رسول تھے۔

حضرت یزید ؓبن شجرہ رہاوی
معلومات شخصیت

نام ونسب

ترمیم

یزید نام، باپ کا نام شجرہ تھا، قبیلۂ مذحج کی ایک شاخ سے نسبی تعلق رکھتے تھے ان کے جدا اعلیٰ رہا سے اوپر نسب نامہ یہ ہے، رہا بن یزید بن عتبہ بن حرب بن مالک ابن آز شامی۔

اسلام

ترمیم

ان کے اسلام کا زمانہ متعین طور سے نہیں بتایا جا سکتا، غالباً عہد رسالت کے آخر میں مشرف باسلام ہوئے۔

ذوق جہاد

ترمیم

ان کا خاص اورامتیازی وصف جہاد وشوق ولولہ تھا، مگر عہد رسالت میں تاخیر اسلام کی وجہ سے انھیں اس سعادت کا موقع نہیں ملا، خلفائے راشدین کے زمانہ میں بعض لڑائیوں میں شرکت کا پتہ چلتا ہے، ان کی تلوار پورے طور پر امیر معاویہ کے زمانہ میں بے نیام ہوئی، اس عہد میں رومیوں کے مقابلہ میں اکثر مہمیں ابن شجرہ ہی کی قیادت میں بھیجی جاتی تھیں، ان کی ایک تقریر سے جو انھوں نے مسلمانوں کے سامنے ترغیب جہاد کے لیے کی تھی، ان کے ولولہ جہاد کا اندازہ ہوتا ہے: لوگو!کاش تمھیں بھی سیاہ سپید اورسرخ وسبز رنگوں اورفوجوں کے کوچ میں وہ کچھ نظر آتا جو میں دیکھتا ہوں، میدان جنگ میں جب مسلمان نماز کے لیے صف بستہ ہوتے ہیں تو جنت دو زخ اورآسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور حوریں اپنی پوری آرایش جمال کے ساتھ نکل آتی ہیں اور ہر اس مجاہد کے لیے جو میدانِ کارزار میں قدم رکھتاہے دعا کرتی ہیں کہ خدایا اسے ثابت قدم رکھ اوراس کی مدد فرما اورجو پیچھے ہٹتا ہے اس سے اپنا چہرہ چھپالیتی ہیں، پس اے قوم کے معززین !میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں جنگ میں پوری کوشش اورثابت قدمی دکھاؤ، یادر کھو کہ تم میں سے جب کوئی میدانِ جنگ کی طرف قدم بڑھاتا ہے توخون کے فوارہ کی پہلی پھوار سے اس کے گناہ خزاں رسیدہ پتوں کی طرح جھڑ جاتے ہیں اورحوریں آکر اپنے ہاتھوں سے اس کا گرد وغبار جھاڑتی ہیں۔ [1]

امارت حج

ترمیم

39ھ میں امیر معاویہؓ نے ان کو اپنی جانب سے امیر الحج بناکر بھیجا تھا، حضرت علیؓ کی جانب سے قثم بن عباس مکہ کے حاکم تھے، اس لیے امارتِ حج کے بارہ میں اختلاف ہوا، حضرت ابو سعیدؓ خدری نے ایک تیسرے شخص شیبہ بن عثمان کا نام امارت حج کے لیے پیش کیا، ان پر فریقین رضا مند ہو گئے۔ [2]

وفات

ترمیم

55ھ میں رومیوں کے مقابلہ میں کسی معرکہ میں شہید ہوئے۔ [3]


حوالہ جات

ترمیم
  1. (حاکم نے پوری تقریر لکھی ہے، ہم نے اس کا ابتدائی ٹکڑا نقل کیا ہے)
  2. (مستدرک حاکم حوالۂ مذکور واستیعاب:2/629)
  3. (مستدرک حاکم حوالۂ مذکور واستیعاب:2/629)