یہودی ریاست
یہودی ریاست ( جرمن ، لفظاً یہودیوں کی ریاست، [1] [2] یا ریاست یہودی) تھیوڈور ھرتزل کی طرف سے لکھا گیا ایک کتابچہ ہے اور جسے فروری 1896ء میں لیپزئش اور ویانا میں م-بریٹینسٹائین کے کتب خانے نے شائع کی - اس کا ذیلی عنوان "یہودی سوال کے جدید حل کی تجویز" ہے اور اسے درحقیقت تھیوڈور ھرتزل کا "روتھشائلڈ کو خطاب" بھی کہا جاتا تھا ، جس میں بینکنگ خاندان روتھشائلڈ کا حوالہ دیا گیا تھا، ہرتزل نے روتھشائلڈ خاندان کو تقریر میں مخاطب کرکے اپنا پیغام پہنچانے کا منصوبہ تھا تاہم بیرن ایڈمنڈ ڈی روتھشائلڈ نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ اس کتابچہ سے اسنے دیار غیر میں بسنے والے یہود کو خطرہ لاحق کر دیا ہے ہرتزل کے اس منصوبے کو مسترد کر دیا تھا،۔ اور یہ بھی سوچا کہ اس کی اپنی بستیوں کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔ [3]
1896ء کے کتابچہیہودی ریاست کا سرورق | |
مصنف | تھیوڈور ھرتزل |
---|---|
ملک | آسٹریا |
زبان | جرمن |
اشاعت | 14 فروری 1896ء |
اسے ابتدائے صیہونیت کی اہم ترین عبارت سمجھا جاتا ہے۔ جیسا کہ اس کتاب میں اظہار کیا گیا ہے، ہرتزل نے 20 ویں صدی کے دوران مستقبل کی یہودی ریاست کے قیام کا تصور دیا۔ انھوں نے استدلال کیا کہ یورپ میں سام مخالفت سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ایک آزاد یہودی ریاست تشکیل دی جائے۔ کتاب میں یہودیوں کو فلسطین میں زمین خریدنے کی ترغیب دی گئی، حالانکہ ارجنٹائن میں یہودی ریاست کے امکان پر بھی غور کیا جارہا تھا۔
"صیہونیت" کی اصطلاح ہرتزل کی وجہ سے مقبول ہوا، جو ناتھن برنبوم کی اختراع تھا۔ [4] 1948ء میں ریاستِ اسرائیل کی قیام کے بعد قوم پرست تحریک کا اختتام ہوا ، لیکن صہیونیت کا مقصد اب اسرائیل کی سیاسی حمایت سے منسلک ہے۔
خلاصہ
ترمیمصدیوں کی مختلف پابندیوں، دشمنیوں اور متعدد پوگروم کے بعد، یورپ کے یہودی پاڑہ میں رہنے کے تک محدود ہو گئے تھے۔ ان کے اعلی طبقے کو مشتعل ہجوم سے خود نمٹنے پر چھوڑ دیا گیا جس کی وجہ سے انھیں بہت زیادہ بے چینی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ نچلا طبقہ مایوسی کا شکار رہا۔ متوسط طبقے کے پیشہ ور افراد پر عدم اعتماد کیا جاتا تھا اور "یہود سے خریداری نہ کرو" کے بیان سے یہودی لوگوں میں کافی اضطراب پایا جاتا تھا۔ یہ سمجھا جاتا رہا کہ یہود کو سکون سے نہیں چھوڑا جائے گا۔ ایسے میں نہ تو یہود کے جذبات میں تبدیلی اور نہ یورپ کے گرد و نواح میں ضم ہونے کی تحریک، یہودی لوگوں کو کوئی خاص امید فراہم کررہی تھی۔
"جہاں بھی یہودی قابل تحسین تعداد میں رہتے تھے یہودی سوال وہاں برقرار رہا۔ جہاں یہ لوگ موجود نہیں، یہودی تارکین وطن کو مجتمع کر کے ساتھ ملایا جاتا رہا۔ ہم فطری طور پر ان جگہوں پر کھینچے چلے جاتے ہیں جہاں ہم پر ظلم نہیں ہوتا اور وہاں ہمارا ظہور ظلم و ستم کو جنم دیتا ہے۔ اور ناگزیر طور پر ہر جگہ، یہاں تک کہ انتہائی مہذب ممالک میں بھی ایسا ہی معاملہ ہے، مثال کے طور پر، فرانس دیکھیں - جب تک کہ یہودی سوال سیاسی سطح پر حل نہیں ہوتا ہے یہی معاملہ رہیگا۔ " [5] کتاب کا استخلاص
میرا ایمان ہیکہ ایک حیرت انگیز یہودی نسل وجود میں آئیگی ۔ مکابیین پھر سے عروج حاصل کریں گے۔ میں اپنے الفاظ پھر سے دہراتا ہوں : وہ یہود جو ریاست کی آرزو کرتے ہیں ، انہیں ملے گی۔ آخر کار ہم اپنی زمین پر بسیں گےاور ہم امن سے اپنے گھروں میں فوت ہو سکیں گے۔ ہماری آزادی دنیا کی آزاد ی ہوگی،ہماری دولت دنیا کی دولت ہوگی،ہماری بڑائی سے انکی عزت ہوگی۔ اور وہاں ہم اپنی فلاح کے لئے جو بھی کوشش کرنا چاہیں گے ، انسانیت کے لئے سودمند، مقوی اور طاقت بخش ہوگا
ہرتزل نے صہیونی حلقوں کی جانب سے یہود کو عثمانی زیر تسلط فلسطین میں آباد کرنے کے لیے پہلے سے کی جانے والی کوششوں کی مخالفت کرتے ہوئے یہ استدلال کیا کہ اگرچہ یہود کی بتدریج در ریختگی کے غلط اصول پر نوآبادیاتی عمل میں اہم تجربات کیے گئے ہیں۔ تاہم ناکامی اس کا مقدر ہے۔ جب تک مقامی آبادی خود کو غیر محفوظ محسوس نہیں کرتی اور حکومت یہود کی مزید آمد کو روکنے پر مجبور نہیں کرتی یہ درریختگی صرف اس ناگزیر لمحہ تک جاری رہے گی۔ ایسی نقل مکانی بیکار ہے جب تک کہ ہمیں اس طرح کی ہجرت مستقل جاری رکھنے کا خود مختار حق حاصل نہیں ہوتا۔ " (کتاب یہودی ریاست سے نقل کیا گیا ، ترجمہ سائلوی ڈی ایویگڈور ، نٹ ، لندن ، 1896ء اور 1988ء میں ڈوور کے ذریعے دوبارہ شائع کیا گیا صفحہ۔ 95 )
مائیکل اسٹین نے نشان دہی کی ، اس عبارت میں ہرتزل نے درست انداز میں پیش گوئی کی کہ چالیس سال بعد کیا ہوگا: 1930ء کی دہائی میں تعہدفلسطین میں یہود کی آمد کا خطرہ محسوس کیا گیا، جس کی وجہ سے 1936–1939 کی عرب بغاوت ہوئی۔ جس نے برطانوی حکومت کو 1939 کے ورق ابیض میں مزید یہود کی آمد پر روک کا اعلان کرنے پر مجبور کیا [6]
اسی وجہ سے ، ھرتزل نے ڈیر جوڈنسٹاٹ اور صیہونزم کی اپنی سیاسی سرگرمی میں، عثمانی حکام سے سرکاری قانونی منظوری حاصل کرنے کے لیے اپنی کوششوں پر توجہ مرکوز کیے رکھی- جس کا کوئی نتیجہ نہ ہوا۔ عملی طور پر صہیونی تحریک ہرتزل کی موت کے بعد، اسہی طریقے پر عمل پیرا ہوئی جس کی اس نے مخالفت کی تھی- "یہودیوں کی بتدریج دریختگی"۔
ہرتزل نے جس آلہ کا تصور کیا تھا وہ ایک "یہودی کمپنی" تھی - جو جزوی طور تحصیل اراضی کی کمپنی کی طرز پر تشکیل دیا جانا تھا۔ اسے یہودی چارٹرڈ کمپنی کہا جا سکتا ہے۔ یعنی متعدد چارٹرڈ کمپنیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جنھوں نے سولہویں صدی سے مختلف یورپی طاقتوں کے خارجی توسیع میں اہم کردار ادا کیا۔ ہرتزل کی تصور کردہ یہودی کمپنی یہود کی موجودہ ممالک میں موجود تمام جائیدادیں اور مستقبل کی یہودی ریاست کی ان کی اراضی و املاک انھیں تفویض کی جائے گی۔ یہ ان کی سابقہ املاک کے بدلے انھیں نئی مساوی املاک فراہم کرے گی۔ ہرتزل نے واضح طور پر یہ عہد کیا کہ چونکہ لندن شہر اس وقت عالمی تجارتی مرکز تسلیم کیا جاتا ہے اس لیے "یہودی کمپنی ایک مشترکہ اسٹاک کمپنی کے طور پر قائم کی جائے گی جو انگریزوں کے دائرہ اختیار سے مشروط ہوگی، جسے انگلینڈ کے تحفظ کے تحت" انگریزی قوانین کے مطابق تیار کیا جائے گا-
اس دیو ہیکل تصور کے لیے ، ہرتزل نے اندازہ لگایا کہ کمپنی کوتقریبا (پانچ کروڑ یا ،بیس کروڑ £ پاونڈ ) درکار ہوں گے۔ در حقیقت، صیہونی تحریک - ہرتزل کے دور اور بعد ازاں، اتنی بڑی رقم کے قریب بھی کہیں نہیں آسکی۔ ہرتزل کی ہدایت پر یہودی نوآبادیاتی ٹرسٹ تشکیل دیا گیا جو واقعتا لندن میں ہی واقع اور برطانوی قانون کے تحت شامل تھا اور اس کا سرمایہ ڈھائی لاکھ پونڈ کے معمولی رقم کے ساتھ تصور کردہ یہودی کمپنی کے سرمائے کے ایک فیصد کا نصف تھا۔ اس کے باوجود، "نوآبادیاتی ٹرسٹ" اور اس سے وابستہ ، اینگلو فلسطین کمپنی نے صہیونی منصوبے کے حقیقی نفاذ میں کلیدی کردار ادا کیا اور بلاخر اسرائیل کے اہم بینکوں میں سے ایک بینک لومی بن گیا۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Howard Sachar (2007) [1976]۔ History of Israel: From the Rise of Zionism to Our Time (3 republication ایڈیشن)۔ New York: Random House۔ صفحہ: 39۔ ISBN 978-0-375-71132-9
- ↑ Henk Overberg (2012) [1997]۔ The Jews' State - A Critical English Translation (1 ایڈیشن)۔ Plymouth, UK: Rowman & Littlefield۔ صفحہ: 3۔ ISBN 978-0765759733
- ↑ Naomi Pasachoff (October 1992)۔ Great Jewish Thinkers: Their Lives and Work۔ Behrman House۔ صفحہ: 97۔ ISBN 0874415292۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جنوری 2016
- ↑ Harper, Douglas۔ "Zionism"۔ Online Etymology Dictionary
- ↑ Herzl, Der Judenstaat, cited by C.D. Smith, Israel and the Arab-Israeli Conflict, 2001, 4th ed., p. 53
- ↑ Dr. Michael Stein, "Collected Essays in the History of Zionism", Tel Aviv, 1954, P. 46-47