جلال پور بھٹیاں

(Jalalpur bhattian سے رجوع مکرر)

قصبہ جلال پور بھٹیاں ،حافظ آباد سے تقریباً 38کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، جنوب مغرب میں پنڈی بھٹیاں(موٹروے انٹرچینج پنڈی بھٹیاں)سے اس کا فاصلہ 21کلومیٹر ہے۔ مغرب کی طرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے چناب بہتا ہے۔

جلال پور بھٹیاں
انتظامی تقسیم
ملک پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں[1]
تقسیم اعلیٰ ضلع حافظ آباد   ویکی ڈیٹا پر (P131) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
متناسقات 32°03′52″N 73°22′37″E / 32.06444°N 73.37699°E / 32.06444; 73.37699   ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مزید معلومات
رمزِ ڈاک
52170  ویکی ڈیٹا پر (P281) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فون کوڈ 0547  ویکی ڈیٹا پر (P473) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قابل ذکر
جیو رمز 7326455  ویکی ڈیٹا پر (P1566) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
Map

تاریخ :

جلال پور بھٹیاں کی قدامت اور وجہ تسمیہ کے متعلق کئی روایات بیان کی جاتی ہیں۔ ماسٹر محمد نظیر ( ایک مقامی لکھاری ) کے مطابق اس قصبہ کی بنیاد جلال الدین خلجی کے دور میں 1290ءاور1295ءکے درمیان رکھی گئی، جلال الدین کی نسبت سے اس کا نام جلال پور مشہور ہو گیا۔ موجودہ جلال پور نو (جلال پور کہنہ) کی تباہی کے بعد ایک نئی آبادی کے طور پر تقریباً تین صدیاں قبل معرض وجود میں آیا، یہی وجہ ہے کہ محکمہ مال اور محکمہ ڈاک کے ریکارڈ میں اسے آج بھی جلال پور نولکھا جاتا ہے۔ البتہ یہاں بھٹی برادری کی با اثر آبادی کے قیام اور ان کی اجاراداری اور رعب کے باعث عام لوگوں میں اسے جلال پور بھٹیاں کہا جانے لگا اور یہی نام مشہور ہوتاگیا ، اس نئی آبادی کی بنیاد مغلوں کے عہدمیں یار محمدبھٹی نے رکھی اور ابتدا میں اس کا نام کوٹ یار محمد رکھا گیا مگر چونکہ اس سے قبل اس کے نواح میں قصبہ جلال پور کہنہ موجود رہا تھا اس لیے اس کا نام جلال پور ہی مشہور ہو گیا۔ اسی راستے کو شیر شاہ سوری نے ایک شاہراہ کی شکل دی جو جموں کو ملتان سے ملاتی تھی، اس شاہراہ پر پڑاؤ کی جگہ پر چوکی ،سرائے اور کنویں تعمیر کیے گئے تھے، اکبر دور میں جب اکبر کے چچا زاد بھائی حکیم محمد مرزا نے بغاوت کا علم بلند کیا اور لاہور سے قابل کا رخ کیا اسی شاہراہ کے ذریعے وہ جلال پور سے گذرا تھا، مغل دور میں یہاں قاضی کورٹ بھی قائم تھی،1802ءمیں مہاراجا رنجیت سنگھ اس پر حملہ آور ہوا ،قصبہ کو خوب لوٹا اور مقامی مالکوں کو ان کی ملکیت سے محروم کر دیا۔بھٹی قبیلہ جھنگ چلا گیا، یہاں کھتری قابض ہو گئے، بالا آخر جب انگریزوں نے سردار چتر سنگھ اور شیر سنگھ اٹاریوالا کی سرکوبی کے لیے کارروائی کی تو بھٹی قبیلہ ایک بار پھر آباد ہو گیا، اس زمانے میں یہ شہر ایک مضبوط فصیل میں گھرا ہوا تھا، فصیل کے ارد گرد ایک خندق کھودی گئی تھی جس میں قصبہ کا فالتو پانی جمع ہو کر آگے برساتی نالے میں جا کر گرتاتھا۔اس برساتی نالے پر ایک قدیم پل آج بھی اپنی شکست و ریخت کے ساتھ موجود ہے۔ جلالپور میں انگریز ی دور حکومت میں لارڈ پن کے زمانے میں 1888ءمیں میونسپل کمیٹی قائم ہوئی جو 1891ءمیں توڑدی گئی،1959ءمیں اسے یونین کونسل اور 1979ءمیں ٹاؤن کمیٹی کادرجہ دیدیاگیا، جبکہ حال ہی 1951ءمیں جلالپور نو کو حافظ آباد اور پنڈی بھٹیاں سے پختہ سڑک کی تعمیر کے ذریعے ملادیاگیا،1952ءمیں دریائے چناب کے سیلابی پانی کوروکنے کے لیے پنڈی بھٹیاں سے براستہ جلالپور ،ونیکی تارڑ تک (بند)کی تعمیر کردی گئی اور اس بند پر ایک پختہ سڑک تعمیر کرکے جلالپور کو ونیکی تارڑ سے ملادیا،دوسری طرف ایک سڑک کے ذریعے اسے سکھیکی سے ملادیاگیا،جلالپوربھٹیاں میں مغل دور سے چلی آرہی غلہ منڈی آج ایک بڑی اور بین الا قوامی منڈی کاروپ دھار چکی ہے۔بزرگوں نے بتایاکہ اندرون غلہ منڈی (پرانی)میں سابق وائس چیئرمین بلدیہ اور رائس ایکسپورٹرحاجی عبد الستار ارائیں کے والدحاجی محمدنزیر بٹ ،حاجی امانت علی راجپوت،حاجی امام علی آرائیں،ملک محمدنزیرآف سولنگی،حاجی نبی بخش سیٹھ،شیخ نور محمد اور ڈاکٹر محمدامجد مرحوم کے والد محمدحسین وغیرہ چند افراد تھے جوآڑھت کاکاروبار کرتے تھے،1963ءکے قریب اسی پرانی غلہ منڈی میں پہلامالیاتی ادارہ حبیب بنک لمیٹڈ قائم ہوا۔ان بھلے وقتوں میں 9سے12روپے فی من مونجی باسمتی جبکہ گندم 13سے15روپے فی من فروخت ہوتی تھی ،دیہاتی کنوئیں سے فصلوں کوثیراب کرتے ہاتھوں سے ہل چلاتے اور گدھوں پر لاد کر منڈی میں لاتے تھے یہ ان دنوں کی بات ہے جب سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے والد مرحوم چوہدری ظہورالٰہی تھانہ جلالپوربھٹیاں میں بطورمنشی(محرر)کام کرتے تھے اور اداکار عابد خان کے والد اسی تھانہ میں بطور ایس ایچ او کام کرتے تھے۔جلالپور بھٹیاں کی تاریخ میں یہ بھی شامل ہے کہ آج کے انڈین معروف فلمی اداکار ہرتیک روشن کے داداروشن داس قیام پاکستان سے قبل اس شہر کے بازار میں کپڑے کی دکان چلایاکرتے تھے۔جبکہ یہ اعزازبھی جلالپوربھٹیاں کوملاکہ اس شہر کانوجوان ملک منیر احمد وسیر کے صاحبزادے مُحّمد عثمان ملک نے 2015 میں پنجاب جوڈیشل سروس کے امتحان میں پنجاب بھر سے ٹاپ کیا اور اس وقت بطور سول جج اپنے فرائض منصبی سر انجام دے رہے ہیں ۔ ایک وار اعزاز جو شیخ برادری کے بزرگ حاجی باواشیخ محمدرمضان کے فرزند ارجمند شیخ محمدصدیق نے پائلٹ بن کر پشاور سے سرگودھا جاتے ہوئے اپنے ہی شہر کے اوپر اپناتیارہ اڑایااور بعد ازاں مقابلہ کے امتحان کے ذریعے اسسٹنٹ کمشنرACبھرتی ہو گیا۔پھر مدینہ منورہ میں ڈپٹی ڈائریکٹر حج بن کر ڈیوٹی دی اوربعدازاں ڈپٹی ڈائریکٹر انٹی کرپشن پنجاب ڈیوٹی دی۔1977ءمیں یہاں نئی غلہ منڈی کاقیام عمل میں لایاگیا اورجہاں کبھی چھوٹے موٹے کاروبار ہوتے تھے وہاں لاکھوں کروڑوں اربوں کوکاروبار ہونے لگے اور اب یہ قصبہ ایک منی صنعتی شہر کی صورت میں چاول کی ایک بین الا قوامی منڈی بن چکاہے،یہاں کاچاول دنیابھر میں ہاتھوں ہاتھ لیاجاتاہے،یہاں 100کے قریب مونجی سے چاول بنانیوالے شیلر اور 50 کے قریب چاول کو ایکسپورٹ کوالٹی بنانیوالے پلانٹ نصب ہیں جہاں روزانہ 80ہزار سے زائد مزدور کام کرتے ہیں جبکہ ایک جوٹ مل بھی یہاں قائم ہے اس میں کئی سو افراد کام کر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دوسری بار رائس ایکسپورٹ ایسوسی ایشن پاکستان کاچیئرمین اسی شہر جلالپوربھٹیاں سے ہی منتخب ہواہے،پہلی مرتبہ حاجی محمداظہر اخترارائیں جبکہ دوسری مرتبہ ملک محمدجہانگیر کو(ریپ) کاچیئرمین بنایاگیاہے۔اور انھیں کے بھائی ملک محمدآصف کوجوٹ ملز ایسوسی ایشن پاکستان کاصدر بنایاگیا۔ مجموعی طور پر یہاں کی آبادی خوش حال ہے،آرائیں،بھٹی ،شیخ،ترکھان،موچی،قصائی ،نائی،مسلم شیخ ،کشمیری اور دیگر قومیں آباد ہیں،1881ءمیں اس شہر کی آبادی 2453، افراد تھی جبکہ 1998ءکی مردم شماری رپورٹ کے مطابق 21248،افراد پر مشتمل ہے،جو2747مکانات میں رہائش پزیر ہیں،ان میں سے 2360مکان پختہ ،38نیم پختہ اور 349کچے ہیں لیکن اس وقت اس شہر کی آبادی 30ہزار کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔یہاں ایک سرہانیاں والادربار بھی موجود ہے جو جلالپور کہنہ روڈ پر واقع ہے جہاں لوگ سرہانیاں چڑھاکر منتیں مانتے ہیں،جبکہ ایک خانقاہ نیامت علی شاہ کی بھی موجود ہے یہاں بھی ہرسال عرس میلہ لگتاہے،ایک دربار معصوماں پاک کے نام سے بھی ہے یہاں بھی ہرسال عرس میلہ لگتاہے،جلالپورکہنہ میں ایک قدیم مسجد اپنی شان وشوکت کیساتھ موجود ہے،جس کے متعلق بتایاجاتاہے کہ یہ جلا الدین خلجی دور کی تعمیر کردہ ہے،چند برس قبل محکمہ اوقاف نے اس کی تزئین نوکرکے اسے محفوظ بنانے کی کوشش کی تھی۔رپورٹ کے مطابق شیر شاہ سوری کی تعمیر کردہ سرائے کی جگہ پر جلالپور کاپولیس اسٹیشن بنایاگیا جس کی عمارت کو چندسال قبل گراکر نئی اور خوبصورت عمارت بنائی گئی،اس وقت جلالپوربھٹیاں(جلالپورنو)میں ایک یونین کونسل،ایک تھانہ،لڑکوں اور لڑکیوں کے ہائی اسکول،مڈل اور پرائمری اسکول،گرلز اور بوائز ڈگری کالجز،مالیاتی اداروں(بنکوں)کی 12شاخیں حبیب بنک،نیشنل بنک،الائیڈبنک،مسلم بنک ، پنجاب بنک ، عسکری کمرشل بنک، یونائیٹڈبنک،سنہری بنک، تعمیربنک،یو بنک، زرعی بنک اورالفلاح بنک موجود ہیں۔ لیکن پبلک پارک کانام ونشان نہیں اور نہ ڈاکخانے کو آج تک کوئی عمارت ملی ،ڈاکخانہ خانہ بدوشی کی زندگی گزاررہاہے۔جبکہ عام انتخابات 2008مےں پہلی بار اس شہر جلالپوربھٹیاں سے ایک ساتھ دوممبران صوبائی اسمبلی چوہدری محمداسداللہ ارائیں اور میاں شاہد حسین بھٹی ایوان میں پہنچے۔۔

بقلم : شاہزیب وزیر

حوالہ جات

ترمیم
  1.    "صفحہ جلال پور بھٹیاں في GeoNames ID"۔ GeoNames ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 دسمبر 2024ء