حافظ آباد
حافظ آباد موجودہ ضلع حافظ آباد، پنجاب، پاکستان کا ایک شہر اور دو تحصیلوں میں سے ایک تحصیل ہے۔ اکبر دور میں اس شہر کو پرگنہ کی حثیت حاصل تھی حافظ آباد بہت قدیم تاریخ کا حامل خطہ ہے اسکندر اعظم کی حملہ آور فوج کا بھی یہاں پڑاو رہا تھا ۔ جلال الدین اکبر مغل بادشاہ کے ایک سرکردہ شخص حافظ میراک کے نام پر اس کا نام حافظ آباد رکھا گیا تھا
حافظ آباد | |
---|---|
شہر | |
حافظ آباد | |
ملک | پاکستان |
صوبہ | پنجاب |
منطقۂ وقت | پاکستان کا معیاری وقت (UTC+5) |
• گرما (گرمائی وقت) | پاکستان کا معیاری وقت (UTC+6) |
ٹیلی فون کوڈ | 0547 |
گوردوارہ چھٹی پادشاہی کلہ صاحب
ترمیمپاکستان کے صوبہ پنجاب کے وسطیٰ شہر حافظ آباد میں سینکڑوں برس پرانا گوردوارہ چھٹی پادشاہی کلہ صاحب اب خستہ حالی کا شکار ہے۔
مورخ اور ’تاریخ حافظ آباد‘ کے مصنف عزیز علی شیخ کے مطابق جہانگیر بادشاہ کے دور میں سکھوں کے چھٹے گرو ہرگوبندجی کشمیر سے واپسی پر یہاں سے گذرے اور دریافت کیا کہ کیا یہاں کوئی گورو کا سکھ ہے تو ان کو پتہ چلا کہ شہر کے باہر ایک ترکھان کرم چند نامی گورو کا سکھ ہے اور ادھر اس کا اپنا مکان تھا اور یہاں گورو نے قیام کیا۔ اس جگہ پر بعد میں دربار صاحب کی عمارت کھڑی ہوئی۔ یہ واقعہ 1030 ہجری کا ہے۔ اس جگہ ہی گورو ہر گوبند جی نے قیام کیا تھا۔ جب گورو ہرگوبند جی حافظ آباد سے چلے گئے تو اس ترکھان کرم چند نے گورو صاحب کی یاد میں تھڑا بنایا۔ جس پر جھاڑو وغیرہ کی خدمت وہ خود کرتے رہے۔ بعد ازاں ایک کوٹھا تیار کیا گیا اور یہی مختصر عمارت مہاراجا رنجیت سنگھ کے زمانے تک تھی۔ گوردوارے کے مرکزی دورازے سے اندر داخل ہونے پر سنگ مرمر پر عقیدت مندوں کے نام درج ہیں۔ یہ نام اس وجہ سے کندہ کرائے جاتے تھے کہ لوگ ان پر چل کر گوردوارے میں داخل ہوں اور انھیں نیکیاں ملیں۔ مغلیہ حکومت کے دور میں دربار کے اخراجات کے لیے نہ زمین وقف تھی اور نہ کوئی اور ذریعہ آمدنی تھا۔ مگر سکھوں کے عہد میں دریار صاحب میں ترقی اور ایزادی شروع ہوئی۔ اس وقت گوردوارے میں جگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ دیکھنے کو ملتی ہے اور قدیم دروازے کھلے آسمان تلے پڑے پڑے گل سڑ رہے ہیں۔ تقسیم ہند سے پہلے اس جگہ پر گرو گرنتھ صاحب رکھی ہوئی تھی اور یہاں ماتھا ٹیکا جاتا تھا۔ مورخ عزیز علی شیخ کے مطابق تقریباً 40 برس مقامی پولیس کے ایک حوالدار کو خواب آیا کہ یہاں پر لال بادشاہ کے نام سے بزرگ دفن ہیں۔ اس پر یہاں پر ان کی قبر بنا دی گئی۔ پہلے جہاں گرو گرنتھ صاحب کے کمرے کی چھت پر خوبصورت نقاشی کی باقیات اب بھی موجود ہیں۔ دربار صاحب کے ساتھ پختہ تلاب تعمیر کیا گیا۔ جسے پہلے پٹھانوں والا چھپڑ کہا جاتا تھا جبکہ سکھوں کے عہد میں کپور اور چوپڑہ خاندان نے اس گورودوارے کے نام بہت ساری زمین لگائی اس کے علاوہ موضع بٹیرے کے مالک چوہدری امر سنگھ چھٹہ اور برج فتح علی کے زمیندار نے بھی کچھ اراضی گوردوارہ چھٹی پادشاہی کلہ صاحب کے نام وقف کی تھی۔ تاہم تالاب کو 80 کی دہائی میں بھر دیا گیا اور اب یہاں مکانات تمعیر ہو چکے ہیں۔ گوردوارہ چھٹی پاٹھ شاہی کے مرکزی حال کی حالت بھی خستہ ہو چکی ہے۔ 1875 میں منشی گوری شنکر تحصیل دار حافظ آباد اور مسٹر کارڈی ڈیپٹی کمشنر گوجرانوالہ نے دربار صاحب کی اوپر کی منزل اور گنبد کے کلس وغیرہ بنوائے۔ (تاریخ حافظ آباد/عزیز علی شیخ/ فکشن ہاوس پبلشر لاہور 1996ء ایوارڈ یافتہ حکومت پنجاب 1997ء