عثمان ہارونی
خواجہ عثمان ہارونی طریقت اور شریعت کے علوم میں امام العصر تھے اور اپنے وقت کے قطب الاقطاب مانے جاتے تھے۔
عثمان ہارونی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 6 مئی 1107ء نیشاپور |
وفات | 4 مئی 1207ء (100 سال) مکہ ، دولت عباسیہ |
مدفن | جنت المعلیٰ |
عملی زندگی | |
استاذ | خواجہ شریف زندنی |
تلمیذ خاص | خواجہ معین الدین چشتی |
پیشہ | فلسفی ، صوفی |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیمنام عثمان کنیت ابو النور تھی۔لقب: شیخ الاسلام۔سلسلہ نسب:آپ کاسلسلہ نسب گیارہویں پشت میں مولا علی شیر خدا تک پہنچتا ہے۔[1]آپ ہارون کے رہنے والے تھے یہ نیشا پور کا ایک گاؤں ہے جس کی وجہ سے آپ کے نام کے ساتھ ہارونی لکھا جاتا ہے۔
تاریخِ ولادت
ترمیمآپ کی ولادت باسعادت اکثر مؤرخین کے نزدیک 500ھ،1107ء کو قصبہ ’’ہارون یاہرون‘‘ خراسان میں ہوئی۔[2]
تحصیلِ علم
ترمیمآپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے نیشاپور تشریف لے گئے۔ وہاں مشاہیر علما ءو فضلاء کی سرپرستی میں علوم و فنون حاصل کیے۔ آپ کے سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ "آپ کا خاندان چوں کہ عمدہ تہذیب و تمدن کا گہوارہ اور علم دوست تھا۔ والد ماجد بھی جیدعالم تھے، اس لیے شعور کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی علم کی طرف راغب ہو گئے اور والد ماجد کی بارگاہ میں رہ کر ابتدائی تعلیم حاصل کی، قرآن شریف حفظ کیا، پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے اس زمانے کے علمی و فنی مرکز نیشاپور کا رخ کیا اور وقت کے مشاہیر علما و فضلا سے اکتساب علم کر کے جملہ علوم مروجہ ومتداولہ میں دسترس حاصل کی۔جلد ہی آپ کاشمار وقت کے علماءوفضلاءمیں ہونے لگا۔
بیعت و خلافت
ترمیمظاہری علوم کی تکمیل اس مرد باصفا کی آخری منزل نہ تھی۔اس لیے علوم باطنیہ کی تحصیل کاعزم مصمم کیا اللہ جل شانہ نے آپ کے پرخلوص ارادے کی بدولت امام الاولیاء،قطب الاقطاب سرتاج سلسلہ عالیہ چشتیہ بہشتیہ خواجہ محمد شریف زندنی کی خانقاہ معلیٰ میں پہنچادیا۔سلسلہ عالیہ چشتیہ میں ان کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے،اور ان کی خدمت میں رہ کر سلوک کی منازل طے کرنے لگے۔عبادت وریاضت اور مجاہدۂ ومکاشفہ نے جب کندن بنادیا تونگاہ ِمرشدنے منصبِ خلافت کے لیے منتخب فرمالیا۔سلسلہ عالیہ چشتیہ کی خلافت سے سرفراز ہوئے۔اسی طرح خواجہ مودود چشتی سے بھی فیض یاب ہوئے۔
مرشد کی عنایات
ترمیمجس دن عثمان ہارونی کو خرقہ خلافت ملا تو آپ کے پیرومرشد شریف زندنی نے کلاہ چار ترکی بھی آپ کے سر پر رکھا اور فرمایا کہ اس چار ترکی کلاہ سے مراد چار چیزوں کو ترک کردینا ہے:
- ۔ ترک دنیا۔
- ۔ ترک عقبیٰ۔ یعنی اللہ کی ذات کے سوا کوئی بھی مقصود نہ ہونا
- ۔ ترک کھانا پینا۔ اس سے مراد کم کھانا اور کم سونا ہے۔
- ۔ ترک خواہش نفس۔ یعنی جو کچھ نفس کہے اس کے خلاف کیا جائے۔[3]
آتش پرستوں کی بستی
ترمیممعین الدین چشتی سے روایت ہے کہ ایک دن عثمان ہارونی کے ہمراہ دوران سفر ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں آتش پرستوں کی بستی تھی وہاں ایک آتش کدہ تھا جس کی آگ کسی دن بھی سرد نہیں ہوئی تھی۔ عثمان ہارونی نے لوگوں سے کہا کہ تم لوگ خدا کی پرستش کیوں نہیں کرتے جس نے اس آگ کو پیدا کیا ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ ہمارے مذہب میں آگ کو بڑا مانا گیا ہے۔ عثمان ہارونی نے فرمایا کیا تم اپنے ہاتھ پاؤں کو آگ میں ڈال سکتے ہو۔ انھوں نے کہا کہ آگ کا کام جلانا ہے یہ کس کی مجال ہے کہ اس کے قریب بھی جائے۔ یہ بات سن کرعثمان ہارونی نے ایک بچہ جو ایک آتش پرست کی گود میں تھا لیا اور بچے سمیت آگ میں کود گئے اور چار گھنٹے کے بعد باہر آئے۔ نہ تو آپ کا خرقہ آگ سے جلا اور نہ ہی بچے پر آگ کا کوئی اثر ہوا۔ آپ کی یہ کرامت دیکھ کر تمام آتش پرست مسلمان ہو گئے اور آپ کے حلقہ ادارت میں شامل ہو گئے۔ آپ نے ان کے سردار کا نام عبد اللہ اور اس چھوٹے بچے کا نام ابراہیم رکھا۔[4]
سیرت وخصائص
ترمیمقطب الاقطاب،ناصرالاسلام،عارف اسرار رحمانی،واصل ذاتِ باری،محبوب صاحب ِ لامکانی،شیخ الاسلام حضرت خواجہ محمد عثمان ہارونی۔آپ علیہ الرحمہ کاشمار اکابرین ِ امت اور کبار اولیاءِ کرام ومشائخِ عظام میں ہوتا ہے۔علوم ظاہریہ وعلوم باطنیہ ،شریعت وطریقت،تصوف ومعرفت میں مجمع البحرین تھے۔تاریخِ مشائخِ چشت میں ہے:’’در علم ِ شریعت وطریقت وحقیقت اعلم بود‘‘[5] طریقت اور شریعت کے علوم میں امام العصر تھے انھیں خواجہ حاجی شریف زندنی سے خرقہ خلافت حاصل ہوا۔ جبکہ خواجہ مودود چشتی سے بھی فیضیاب ہوئے آپ کے چار خلفاء تھے
- خواجہ معین الدین چشتی سنجری
- خواجہ نجم الدین صغریٰ
- شیخ سعدی گنگوہی
- خواجہ محمد ترک
وصال
ترمیمآپ کا وصال 5 شوال 617ھ کو ہوا اس وقت ان کی عمر 91 سال تھی[3] آخری وقت میں مکہ مکرمہ میں چلے گئے اور جنت المعلیٰ کے قریب دفن ہوئے۔ ان کی بارگاہ میں خواجہ معین الدین چشتی 32 سال رہے۔ 20 سال کی عمر میں آئے اور 52 سال کی عمر میں خلافت سے نوازے گئے۔ ان ایام میں اپنے مرشد نے جو ملفوظات فرمائے انھیں انیس الارواح کے نام سے تحریر کیا [6]