آئن سٹائن کا نظریہ وقت

وقت کی تعریف آئن سٹائن کے نقطہ نظر سے

وقت کی پیدائش بگ بینگ کے ساتھ ہی ہو گئی تھی تب سے یہ وقت مادہ کے ساتھ جوڑا ہوا ہے جیسے انٹروپی بڑھتی جارہی ہے، آئن سٹائن کے نظریہ اضافت سے پہلے وقت کو صرف پیمائش کرنے کا پیمانہ مانا جاتا تھا۔مگر آئن سٹائن نے بتایا کہ وقت ایک مقدار ہے، ایک حقیقی ٹھوس چیز ہے محض تجریدی چیز نہیں ہے۔

آئن سٹائن کا تصور وقت کے بارے میں یہ ہے کہ وقت مکان کی بُعدِ رابع یعنی چوتھی ڈائمینشن ہے، جس سے ابہام پیدا ہوا کہ زمان مکان کے تابع ہے، (جس پر علامہ اقبال نے اِس خدشے کا اظہار کیاکہ آئن سٹائن کے نظریہ سے زمانے کی خلاقیت ختم ہوجاتی ہے ۔ اپنے وقت میں علامہ اقبال نے بالکل ٹھیک خدشے کااظہارکیا تھا، لیکن بعد کی فزکس نے '’لامتناہی ٹائم لائنز '' کا نظریہ پیش کرکے زمان کے جبر کو دوبارہ توڑدیا۔ یوں علامہ اقبال کامؤقف درست ثابت ہوا، بہر حال علامہ نے آئن سٹائن کی تھیوری کی تعریف بھی کی تھی [1])

رضی الدین صدیقی اپنے مضمون ’’اقبال کا زمان و مکان کا تصور‘‘ میں لکھتے ہیں۔اقبال اعتراف کرتے ہیں کہ ’’ہم عام آدمیوں کے لیے یہ ممکن نہیں کہ آئن سٹائن کے زمان کی حقیقی ماہیت کو سمجھ سکیں‘‘۔

آئن سٹائن نے ہمیں وقت کے ایک مختلف پہلو سے روشناس کروایا کہ وقت ایک ریلٹیو مقدار ہے جو رفتار پر انحصار کرتی ہے مختلف رفتار سے حرکت کرتے ہوئے مشاہدین کے لیے وقت ہمیشہ مختلف ہوتا ہے

وقت کے بارے میں عموماً کہا جاتاہے کہ وقت گذر رہاہے۔آئن سٹائن کی فزکس کے اعتبار سے یہ درست نہیں ہے کہ۔ وقت نہیں گزرتا ، بلکہ چیزیں وقت میں سے گزرتی ہیں۔چونکہ چیزیں وقت میں سے گزرتی ہیں چنانچہ یہ بھی ممکن ہے کہ چیزیں آگے کی طرف جانے کی بجائے پیچھے کی طرف سفر کریں۔ کیا ہم ماضی میں بھی سفر کرسکتے ہیں؟ کوئی چیز وقت میں صرف مستقبل کی طرف ہی ہمہ وقت گامزن نہیں ہوتی بلکہ ٹھیک اُسی رفتار سے وہ ماضی میں بھی سفر کررہی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے سامنے میز پر رکھی ہوئی کتاب بظاہر ساکت ہے۔ لیکن یہ وقت میں سے گذر رہی ہے، ماضی اور مستقبل دونوں میں سے۔

ایک ہوتاہے وقت کا چیزوں میں سے گذرنا

اور ایک ہوتاہے چیزوں کا وقت میں سے گذرنا

پہلا خیال کہ وقت چیز سے گزرتاہے کلاسیکی تھیوری ہے۔ دوسرا خیال کہ چیزیں وقت میں سے گزرتی ہیں ماڈرن تھیوری ہے۔[2]

آئینسٹائن کے مطابق ماضی حال مستقبل صرف ایک illusion سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے ماضی حال مستقبل پہلے سے موجود ہے، لاکھوں نوری سال دوری پر موجود کوئی خلائی مخلوق میری طرف حرکت کرنا شروع کرے گا تو اس خلائی مخلوق کو میرا مستقبل نظر آنا چاہیے اگر وہ میرے سے مخالف سمت میں حرکت کرتا ہے تو اُسے میرا ماضی نظر آنا چاہیے۔

وقت کی لچک ترمیم

ایک اور چیز ہے ٹائم ڈائیلیشن (وقت کی لچک) جو آئن سٹائن کے تصورِ زماں کا خاصہ ہے۔ ٹائم ڈائیلیشن اس وقت ہوتا ہے جب کوئی چیز سپیس میں روشنی کی رفتار کے قریب ترین رفتار سے سفر کرتاہے۔تب اُس چیز کا وقت آہستہ گزرتاہے اور زمین پر موجود چیزوں کا وقت جلدی سے گزررہا ہوتاہے۔

فرض کریں ایک باپ ہے جس کی عمر بائیس سال ہے اور ایک بیٹاہے جس کی عمر ایک سال ہے۔ اب اگر باپ کو ہم خلا کے سفر پر روانہ کر دیں یا زمین پر ہی کسی طرح اس کی حرکت کی رفتار بڑھادینے کا بندوبست کر لیں اور وہ روشنی کی رفتارکے قریب قریب سفر کرے۔ تو ایک سال بعد جب وہ واپس آئے گا تو اس کی عمر بائیس سال سے تیئس سال ہو چکی ہوگی جبکہ اس کے بیٹے کی عمر ہوسکتاہے اسّی سال ہو چکی ہو۔ زیادہ رفتار پر واقعی ٹائم ڈائلیشن وقوع پزیر ہوتاہے، اس حقیقت کو متعدد تجربوں سے ثابت کیا جاچکاہے۔جن میں خلائی شٹل میں جانے والے خلابازوں کی عُمروں سے لے کر ہیڈران کولائیڈرز میں مادے کے چھوٹے زرّات کی رفتاروں اور ٹائم تک کے بے شمار تجربات ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ فی الواقعہ اُونچے درجے کی رفتاروں پر وقت آہستہ گزرنے لگتاہے۔[3]

نظریے کی صداقت ترمیم

مختلف رفتار پر حرکت کرتے ہوئے واقعی وقت کی رفتار پر بھی اثر ہوتا ہے ایک تجربہ جو اکتوبر 1971 کو کیا گیا جسے Hafele-keating کا نام دیا گیا تھا جس میں چار سیزیم بیم اٹامک کلاکس (گھڑیوں) کا استعمال کیا گیا ان میں سے کچھ گھڑیوں کو کمرشل فلائٹس پر eastwood اور westwood دونوں اطراف دو دو مرتبہ سفر کروایا گیا اور جب انھیں گھڑیوں کے وقت کا ریفرینس کلاک (تجربہ گاہ کی گھڑی) سے موزانہ کیا گیا تو سبھی گھڑیوں کے وقت میں ایک منظم فرق تھا اور وہ فرق تھیوری آف ریلٹیویٹی کی prediction کے مطابق تھا۔[4]

تجربات و مشاہدات ترمیم

ایک خاص تجربہ جو اِسی مظہر کو دیکھنے کے لیے پرفارم کیا گیا وہ کچھ اس طرح تھا کہ ایک تیز رفتار جیٹ طیّارے نے کرۂ زمین کے گرد برق رفتاری سے چکر کاٹا۔ اس طیارے میں بھی ایک سیزیم کلاک نصب تھی اور ایک سیزیم کلاک زمین پر بھی نصب تھی۔ جب طیارہ چکر لگا کر لوٹا تو دونوں گھڑیوں میں فرق تھا۔ طیّارے کے کلاک نے آہستہ رفتار کے ساتھ ٹِک ٹِک کی تھی یعنی طیارے میں موجود پائلٹ کا وقت اہلِ زمین کی نسبت کم گذرا تھا۔

اس حقیقت کو دیگر کئی تجربوں سے ثابت کیا جاچکاہے۔جن میں خلائی شٹل میں جانے والے خلابازوں کی عُمروں سے لے کر ہیڈران کولائیڈرز میں مادے کے چھوٹے زرّات کی رفتاروں اور ٹائم تک کے بے شمار تجربات ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ واقعی اُونچے درجے کی رفتاروں پر وقت آہستہ گزرنے لگتاہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. "علامہ اقبال اور آئن سٹائن" 
  2. "تصور زماں" 
  3. "Time_dilation" 
  4. "Hafele experiment" 

آ