آتش موسی
اس مضمون یا قطعے کو جلتی جھاڑی میں ضم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ |
آتش موسی وہ آگ، روشنی یا تجلی جو حضرت موسی علیہ السلام کو کوہ طور پر نظر آئی تھی۔ سورہ طہ میں ہے جب اسے آگ دکھائی دی تو اپنے گھر والوں سے کہا:
اِذْ رَاٰ نَارًا فَقَالَ لِاَهْلِـهِ امْكُـثُـوٓا اِنِّـىٓ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّـىٓ اٰتِيْكُمْ مِّنْـهَا بِقَبَسٍ اَوْ اَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى
ٹھہر جاؤ ، میں نے آگ دیکھی ہے۔ شاید میں تمھارے پاس اس میں سے ایک شعلہ لے آوں یا اسی آگ پر رستہ پاؤں۔ (آیت10)
یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب وہ مع اہل و عیال مدائن سے مصرکی طرف واپس آ رہے تھے۔ بکریاں ساتھ تھیں۔ کوہ طور کے قریب راستہ بھول گئے۔ اسی پریشانی کے عالم میں رات پڑ گئی۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس حالت میں بیوی کو درد زہ شروع ہوا۔ اچانک دور سے آپؑ کو آگ نظر آئی۔ چنانچہ اہل و عیال کو چھوڑ کر آگ لینے روانہ ہوئے۔
آگ طوی کی مقدس وادی میں جل رہی تھی۔ یہاں آکر انھوں نے عجیب منظر دیکھا۔ ایک درخت سے پر ہیبت شعلے نکل رہے ہیں اور آگ جوں جوں بڑھتی ہے درخت توں توں سرسبز ہوتا جا رہا ہے۔
روح المعانی میں درج ہے کہ آگ کی چار قسمیں ہیں۔ ایک وہ جس میں نور ہے اور وہ جلاتی بھی ہے۔ جیسے دنیا کی آگ، ایک وہ جس میں نہ نور ہے، نہ وہ جلاتی ہے ، جیسے درختوں کی آگ، ایک وہ جس میں نور نہیں مگر وہ جلاتی ہے، جیسے جہنم کی آگ اور ایک وہ جس میں نور ہے مگر وہ جلاتی نہیں، جیسے وہ آگ جو حضرت موسیؑ نے دیکھی۔ وہ آگ نہ تھی، اللہ کا نور تھا۔ ہدایت کی روشنی تھی۔ (روح المعانی)آپؑ تذبذب کے عالم میں تھے کہ آواز آئی ؛
اِنِّـىٓ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ۖ اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى۔ وَاَنَا اخْتَـرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوْحٰى
میں تیرا رب ہوں۔ سو تُو اپنی جوتیاں اتار دے۔ تُو طوی کی پاک وادی میں کھڑا ہے اور میں نے تھے ( نبوت کے لیے ) چن لیا ہے، سو اسے سن جو وحی کی جاتی ہے۔ (طہ12-13)
اور موسی نے کہا
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِىْ صَدْرِىْ۔ وَيَسِّـرْ لِـىٓ اَمْرِىْ ۔وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِىْ
میرے رب میرا سینہ کھول دے اور میرا کام میرے لیے آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے( طہ25-26)
آتش موسی اس آگ کو بھی کہتے ہیں جو کوہ طور پر گری اور اسے جلا کر خاکستر کر گئی۔ جس وقت بنی اسرائیل نے کہا تھا کہ جب تک ہم تیرے خدا کو آنکھوں سے دیکھ نہ لیں گے، ایمان نہ لائیں گے۔ ان کے اس مطالبے پر موسیؑ بنی اسرائیل کے 70 منتخب آدمیوں کو ساتھ لے کر کوہ طور پر گئے اور سوال کیا۔
وَلَمَّا جَآءَ مُوْسٰى لِمِيْقَاتِنَا وَكَلَّمَهٝ رَبُّهٝ قَالَ رَبِّ اَرِنِـىٓ اَنْظُرْ اِلَيْكَ ۚ قَالَ لَنْ تَـرَانِىْ وَلٰكِنِ انْظُرْ اِلَى الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهٝ فَسَوْفَ تَـرَانِىْ ۚ فَلَمَّا تَجَلّـٰى رَبُّهٝ لِلْجَبَلِ جَعَلَـهٝ دَكًا وَّخَرَّ مُوْسٰى صَعِقًا ۚ فَلَمَّآ اَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ اِلَيْكَ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ۔
اور جب موسٰی ہمارے مقرر کردہ وقت پر آئے اور ان کے رب نے ان سے باتیں کیں تو عرض کیا کہ اے میرے رب مجھے دکھا کہ میں تجھے دیکھوں! فرمایا کہ تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتا لیکن تو پہاڑ کی طرف دیکھتا رہ اگر وہ اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو تو مجھے دیکھ سکے گا، پھر جب اس کے رب نے پہاڑ کی طرف تجلی کی تو اس کو ریزہ ریزہ کر دیا اور موسٰی بے ہوش ہو کر گر پڑے، پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کی کہ تیری ذات پاک ہے میں تیری جناب میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں۔۔(الاعراف 143)۔
وَاِذْ قُلْتُـمْ يَا مُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّـٰى نَرَى اللّـٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَاَنْتُـمْ تَنْظُرُوْنَ۔ثُـمَّ بَعَثْنَاكُمْ مِّنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ہم ہرگز تیرا یقین نہیں کریں گے جب تک کہ روبرو اللہ کو دیکھ نہ لیں، تب تمھیں بجلی نے دیکھتے ہی دیکھتے آ لیا۔ مگر پھر ہم نے تمھیں موت کی سی حالت سے اٹھایا تاکہ شکر کرو۔( البقرہ55-56)[1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا- ص 3-4، ج 1-قاسم محمود، عطش درانی-مکتبہ شاہکار،لاہور