آریائی زبان قدیم آریائی زبان اس وقت موجود نہیں ہے، تاہم اس کے بہت سے الفاظ موجودہ زبانوں میں مختلف صورتوں اور ہیت میں موجود ہیں۔ قدیم آریائی زبان جس کو ہند یورپی زبان بھی کہا جاتا ہے۔ جب آریا مغربی اور جنوبی حصوں میں پھیل گئے، تو مختلف علاقوں میں جاکر ان کی زبانوں میں اختلاف ہوتا گیا۔ اب ان زبانوں کی شکل بہت حد تک مختلف ہے، تاہم اس کے الفاظ کی ملتی جلتی صورت سے ان ان کے ایک ہی زبان سے نکلنے کا اندازہ لگایا جاتا سکتا ہے۔ آریائی زبان کے چند الفاظ اپنے معنوں کے ساتھ درج کیے جاتے ہیں، جن سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان زبانوں کے ماخذ کیا ہیں۔

اردو سنسکرت فارسی لاطینی یونانی جرمن روسی انگریزی
ماں ماتا مادر ماتیر میتیر مُٹر مات مذر
باپ پتر پدر پاتیر پاتر فاٹر پات فاذر
بھائی بھراتر برادر فراتیر فراتر بروڈر برات برادر

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ مقصود شدہ آریائی زبان کی ایک چھوٹی سی ستاویز دریافت ہو گئی ہے۔ یہ عہد نامہ ہے جو ہتیوں کے بادشاہ مستنیّ کے دیوتا متر اندر اور ورن کا ذکر کیا تھا۔ یہ زبان نہ تو ہند آریائی ہے اور نہ ایرانی بلکہ دونوں کا ماخذ آریائی زبان تھی۔ یہ دستاویز پندھویں صدی قبل مسیح لکھی گئی تھی۔ گریسن کا کہنا ہے کہ آریا ڈھائی ہزار سال قبل مسیح یہ لوگ ایران کے شمالی مغربی علاقے میدیا میں آباد ہوئے۔ پھر کئی صدیوں کے بعد کچھ لوگ وہاں سے نکل کر ہند میں چلے آئے اور ان کی زبان قدیم آریائی سے سے الگ ہوکر ہند آریائی ہو گئی اور جو لوگ ایران میں رہے گئے ان کی زبان بدلتے ہوئے ایرانی بن گئی۔ قدیم آریائی زبان قدیم ہند یورپی آریائی اور سنسکرت زبانوں میں اتنی مشابہت ہے کہ معلوم ہوتا ہے دونوں زبانیں کسی زمانے میں ایک ہی مشترکہ زبان کی بولیاں تھیں۔ اس زبان کی اصل صورت اہل لسانیات کو براہ راست معلوم نہیں، اس معاملے میں ان کا علم محض استخراجی ہے۔ جو دونوں زبانوں کی مشابہت پر مبنی ہے۔ آریائی زبان کی اس اسختراجی تشکیل کی خصوصیتیں مندرجہ ذیل تھیں۔ (1) قدیم ہند یورپی زبان میں ’أ، آ، اَے، 1، او‘ مختلف حروف علت تھے۔ لیکن ان سب کا، حروف علت سنسکرت میں محض ’أ، آ‘ ہو گیا۔ ان حروف کا اختلاف یورپ کی اکثر یورپی زبانوں میں نمایاں ہے۔ مثلاً

حروف علت ہند یورپی یونانی سنسکرت اوستا اردو
أے سیپتم ہیپّتَ سپتَ ہسپتَ سات
  1. آریائی زبان میں ہند یورپی میں بے رنگ ’ا‘ جس کا تلفظ نہایت کمزور اور غیر واضح ہواکرتا تھا اس کی ’اِ‘ ہو گئی۔ مثلاً
ہند یورپی یونانی سنسکرت قدیم فارسی اوستا اردو
پتر پَتیر پتا پتا پت باپ
  1. اس میں حروف علت ’ا اُ‘ کے بعد ’س‘ کی ’ش‘ ہو گئی تھی۔ مثلاً

: لاطینی قدیم سنسکرت اوستا : پنسوِ (میں کچلتا ہوں) پنشبٹی (وہ کچلتا ہے) پنشتو (وہ کچلتا ہوا) (4) ’اُ‘ کے بعد لفظ ہند یورپی آخری ’س‘ کی ’ح‘ ہو گئی تھی۔ (اس ’ح‘ کو سنسکرت میں ’وسرگَ‘ اخراج کہتے تھے۔ ) جو قدیم ہند آریائی میں تو برقرار رہی، لیکن اور ایرانی میں حذف ہو گئی اور لفظ کا آخری ایرانی ’ا‘ یا ’او‘ میں تبدیل ہو گیا۔ مثلاً

ہند یورپی یونانی سنسکرت اوستا
منیسیں (دل میں) منیوس (جوش) مسخَ (مَن، دل) مَنو (من، دل)
  1. لفظ کے آخر میں ’ن‘ کے بعد ’ت‘ حذف ہو گیا تھا۔ مثلاً
ہند یورپی سنسکرت اوستا
بھرگنیت ب رہن برزد

(6) ہند یورپی ’دھ × ت‘ کا ’ز + د‘ بن گیا جو سنسکرت میں تو برقرار رہق لیکن قدیم ہند آریائی میں اپنے پہلے جز ’ز‘ کو بالکل کھو بیٹھا۔ مثلاً

ہند یورپی سنسکرت اوستا
’م۔ ن۔ دھ تا‘ (توجہ) ’میدھا‘ (ذہن) ’مزدا‘ (یاداشت)

(7) ہندیورپی میں حالت اضافی جمع کی علامت ’اوم‘ تھی۔ آریائی زبان میں ان الفاظ کے بعد جن کے آخر حروف علت تھے، لاحقے ’اوم‘ کا نام بن گیا۔ مثلاً : سنسکرت اوستا اردو : ’گری ٹرام‘ گ اِ رِ کم پہاڑوں کا (8) ہند یورپی زبان میں فعل مجہول کی علامت کوئی نہیں تھی۔ لیکن آریائی زبان میں مجہول کی تشکیل بذریعہ ’ی‘ بن گئی، جو دونوں زبانوں میں برقرار رہی۔ مثلاً : سنسکرت اوستا اردو

’ک۔ رِ يَ۔ تے ‘ ’کرِ یے اتِ‘ کیا جاتا ہے
  1. اس زبان میں ’ساتھ، ستر، اسی اور نوے کو ظاہر کرنے کے لیے عدوی الفاظ کی تشکیل میں لاحقے ’تَ ی‘ کا استعمال ہوتا تھا، جو سنسکرت میں برقرار رہا لیکن ایرانی میں ’تی‘ میں تبدیل ہو گیا۔ مثلاً
’شسٹ یَخ ‘ ’خ۔ ش۔ وَشِیتِم‘ ساتھ
’نُوَتَ یَخ‘ ’نَوَ اتیِم‘ نوے

(10) نحوی ترکیب میں حالت اخراجی کا علیت کے معنی میں حالت طرفی کا حالت اضافی معنی میں، حالت مقامی اور اضافی کا حالت مطلق کے معنی میں استعمال اس زبان میں ہوتا تھا۔ کیوں کہ یہ استعمال سنسکرت اور اوستا دونوں میں پایا جاتا ہے۔

سنسکرت اوستا،
حالت ظرفی انسانی کے معنی میں ’تس یائی گ رہِم(اس عورت کا گھر) ’آہ راَئی یسینا‘ (خدا کی حمدو سنا کے گیت )[1][2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. سدھیشورورما، آریائی زبانیں۔ 88
  2. شاہکار انسائکلوپیڈیا معلومات۔ آریا