قدیم فارسی

فارسی ایرانی

فارسی قدیم کا رسم الخط دوسرے تمام میخی خطوط جیسے سمیری، عکادی اور بابلی وغیرہ سے سادہ تر اور صحیح تر ہے اسے ”پارسی پاستا ن“اور ہخامنشی زبان بھی کہتے ہیں، تقریباً 700 ق م میں فارس (موجودہ:ایران) کے بادشاہ ہخامنش نے ناصرف اہل عکاد کی علامتی حروف کو سلیبی حروف میں تبدیل کر وایا بلکہ ان کی شکل بھی آسان اور مختلف کردی۔ انھوں نے ٹیڑھی میڑھی پیچیدہ میخوں کو ترک کر دیا اور صرف عمودی اور افقی میخوں کو اختیار کیا۔

قدیم فارسی
علاقہقدیم ایران
دورپیشرو وسطی فارسی
میخی خط
زبان رموز
آیزو 639-2peo
آیزو 639-3peo
peo
گلوٹولاگoldp1254[1]
اس مضمون میں بین الاقوامی اصواتی ابجدیہ کی صوتی علامات شامل ہیں۔ موزوں معاونت کے بغیر آپ کو یونیکوڈ حروف کی بجائے سوالیہ نشان، خانے یا دیگر نشانات نظر آسکتے ہیں۔ بین الاقوامی اصواتی ابجدیہ کی علامات پر ایک تعارفی ہدایت کے لیے معاونت:با ابجدیہ ملاحظہ فرمائیں۔
تاریخ
فارسی زبان
Proto-Iranian (ca. 1500 قبل مسیح)

مغربی ایرانی زبانیں


قدیم فارسی (c. 525 قبل مسیح - 300 قبل مسیح)

Old Persian cuneiform script


Middle Persian (c.300 قبل مسیح-800 عیسوی)

پہلوی زبانManichaean scriptAvestan script


جدید فارسی ( 800 عیسوی سے )

فارسی-عربی رسم الخط

قدیم فارسی رسم الخط کے حروف

گرائمر ترمیم

فارسی قدیم کا یہ میخی خط یوں تو آرامی سے ماخوذ ہے مگر فارسیوں نے اس میں حرف علت کی بجائے سلیبی حروف استعمال کرکے اس کی پیچیدگی دور کردی تھی، یہ زبان سنسکرت سے ملتی جلتی تھی اور بائیں سے دائیں لکھی جاتی تھی۔ اس کے حروف کی تعداد 36 ہیں اور چار سو سے زیادہ علامتی الفاظ بھی اس میں جوں کے توں رائج رہے۔ چند علامتی حروف یہ ہیں خشائی ثیا (بادشاہ)، دھیاوش (ملک)، بومِش(زمین)، اہورمزد( خدا) اور بَگ(دیوتا)وغیرہ اس رسم الخط میں الفاظ کو جُدا رکھنے کے لیے ایک فل سٹاپ بھی موجود تھا اور ساتھ ہی سو تک گنتی بھی موجود تھی۔

تاریخ ترمیم

 
اصطخر کے شاہی قبرستان کا کتبہ

ہخامنش کے عہد میں یہی زبان فوجی اور شاہی زبان کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس عہد کے جتنے بھی کتبے دستیاب ہوئے وہ بالعموم فارسی قدیم میں تھے۔ فارسی قدیم کے دریافت شدہ کتبوں میں سب سے مشہور کتبہ بہتون ہے یہ کتبہ تین زبانوں فارسی قدیم، عیلامی اور بابلی میں ہے۔ دوسرا مشہور کتبہ” نقشِ رستم“ہے جو دارا اوّل کے آباد کردہ شہر اصطخر کے شاہی قبرستان میں بادشاہوں کی قبروں پر تحریر ہے۔ فارسی قدیم، پارسیوں کی مذہبی زبان تھی اور ان مذاہب کی اولین تحریریں اور مذہبی احکام اسی خط میں لکھے جاتے تھے۔ قدیم فارسی کے بہت سے الفاظ ایسے بھی ہیں جو آج جدید فارسی میں شامل ہیں، مثال کے طور پر اصطخرکے شاہی قبرستان میں بادشاہ کیخسرو کے مقبرے سے دریافت شدہ قدیم فارسی کی یہ حمد ملاحظہ کیجیے:

کیخسرو کی حمد ترمیم

 
قدیم فارسی میں کیخسرو کی حمد

بَگَ وَزرَکَ اوُرَمَزدَا ہیَا

اِمَام بُمِم ادَدَا ہیَا

اوَمَ اَسمانم ادَدَا ہیَا

مَرتِیَم ادَدَا ہیَا

شِئیَتِم ادَدَا مَرتیَی ہیَا

خداوند عظیم اہورمزداہے وہ،

جس نے بنائی یہ زمین،

جس نے بنایا یہ آسمان،

جس نے بنائے انسان،

جس نے چیزیں بنائیں انسانوں کے لیے

اس حمد میں موجود اکثر الفاظ بُمِم(بھومی یعنی زمین)، اَسمانم(آسمان)، مَرتِیَم(مرد) اور شِئیَتِم(شی) وغیرہ آج بھی فارسی اورسنسکرت زبان میں ملتی ہیں۔

الفاظ معنی ترمیم

عام بول چال کے کئی الفاظ آج بھی اردو میں مستعمل ہیں مثلاً:

 
الفاظ معنی

فارسی قدیم کے علاوہ ایران میں ایک زبان ”اوستائی“ بھی رائج تھی، پھریونانیوں کے حملہ کے بعد جب پارتھیوں کی حکومت آئی تو ان کی زبان ”پرتو“ جو بعد میں پہلوی کہلائی، بھی زبان زدعام ہو گئی تھی۔ چنانچہ لوگوں نے قدیم فارسی کے دشوار میخی خط کو چھوڑ دیا اور ساسانی دور آنے تک ایران میں صرف اوستائی اور پہلوی زبان ہی باقی رہ سکیں۔[2]

حوالہ جات ترمیم

  1. ہرالڈ ہیمر اسٹورم، رابرٹ فورکل، مارٹن ہاسپلمتھ، مدیران (2017ء)۔ "Old Persian"۔ گلوٹولاگ 3.0۔ یئنا، جرمنی: میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار دی سائنس آف ہیومین ہسٹری 
  2. ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کراچی