آر-36 ایم (ایس ایس-18 سیٹن)
آر-36 ایم (R-36M)، جسے ایس ایس-18 سیٹن (SS-18 Satan) بھی کہا جاتا ہے، ایک روسی بین البراعظمی بیلسٹک میزائل ہے جو 1970 کی دہائی میں متعارف کرایا گیا۔ یہ میزائل سرد جنگ کے دوران روسی نیوکلیئر فورسز کا ایک اہم حصہ تھا اور اس کی طاقتور خصوصیات نے اسے دنیا کے سب سے خوفناک اسٹریٹجک میزائلز میں شامل کیا۔[1]
آر-36 ایم | |
---|---|
فائل:R-36M Satan.jpg آر-36 ایم (ایس ایس-18 سیٹن) میزائل | |
قسم | بین البراعظمی بیلسٹک میزائل |
مقام آغاز | روس |
تاریخ ا استعمال | |
استعمال میں | 1975–موجودہ |
استعمال از | روس, یوکرین |
تاریخ صنعت | |
ڈیزائنر | Yuzhnoye Design Office |
ڈیزائن | 1960s |
تیار | 1975–1988 |
ساختہ تعداد | 308 (روس) |
تفصیلات | |
وزن | 210,000 kg |
لمبائی | 34.5 m |
قطر | 3 m |
رفتار | Mach 24 |
گائیڈنس نظام | Inertial guidance, Star sensor |
درستگی | CEP 1,000 meters |
لانچ پلیٹ فارم | سائلو ماؤنٹڈ لانچرز |
ترقی و ارتقاء
ترمیمآر-36 ایم کی ترقی 1960 کی دہائی کے اوائل میں شروع ہوئی، اور یہ 1975 میں روسی فوج میں شامل ہوا۔ اس کی ترقی نے اس کی طاقتور کارکردگی کو یقینی بنایا، جو اسے ایک مؤثر نیوکلیئر اسٹرائیک سسٹم بنا دیتا ہے۔[2]
خصوصیات
ترمیمآر-36 ایم ایک بین البراعظمی بیلسٹک میزائل ہے جو تقریباً 11,000 کلومیٹر کی رینج فراہم کرتا ہے اور Mach 24 کی رفتار سے پرواز کر سکتا ہے۔ اس کی راہنمائی کے لیے انرشیل گائیڈنس سسٹم اور اسٹار سینسر استعمال ہوتے ہیں، جو اسے انتہائی درستگی کے ساتھ ہدف کو نشانہ بنانے میں مدد دیتے ہیں۔[3]
ورژنز
ترمیمآر-36 ایم کے مختلف ورژنز کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، جن میں شامل ہیں:
- آر-36 ایم-1: ابتدائی ورژن، بنیادی خصوصیات کے ساتھ۔
- آر-36 ایم-2: جدید خصوصیات اور بہتر رینج کے ساتھ ورژن۔
- آر-36 ایم-3: متعدد وارہیڈ آپشنز کے ساتھ ورژن۔
استعمال کنندگان
ترمیمآر-36 ایم روس کے علاوہ دیگر ممالک کے زیر استعمال بھی ہے، جیسے:
جنگی استعمال
ترمیمتجربات
ترمیمآر-36 ایم کے مختلف کامیاب تجربات کیے گئے ہیں، جن میں اس نے اپنی رینج اور درستگی کے ساتھ مؤثر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ میزائل سسٹم سرد جنگ کے دوران ایک اہم نیوکلیئر اسٹرائیک سسٹم تھا اور اس کی کارکردگی پر مثبت رائے دی گئی ہے۔[4]
حالیہ تنازعات
ترمیمآر-36 ایم کی ترقی اور استعمال نے اسے عالمی سطح پر ایک اہم اسٹریٹجک اثاثہ بنا دیا ہے۔ اس کی طاقتور راہنمائی سسٹمز اور مؤثر رینج کی وجہ سے یہ دنیا کے کئی ممالک کی دفاعی حکمت عملی کا حصہ ہے۔