آسام تحریک
آسام تحریک یا آسام ایجی ٹیشن آسام میں چلنے والی ایک مشہور تحریک تھی جو 1979ء-1985ء تھی۔ یہ تحریک آسام میں غیر قانونی تارکین وطن (بنگالی مسلمان) کے خلاف آسامیوں (ہندؤوں) نے چلائی تھی۔[1] اس تحریک کی قیادت کل آسام طلبہ اتحاد (آل آسام اسٹوڈنٹ یونین) اور آل آسام گانا سنگرام پریشد نامی سخت گیر ہندو تنظیمیں کر رہی تھیں۔ جب آسامی ہندؤوں نے دیکھا کا ریاست میں کے کئی اضلاع میں مسلمان آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور یوں ریاستی انتخابات میں ان کے کئی نمائندے منتخب ہو جائیں گے تو وہ طیش میں آ گئے۔ پھر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ تحریک چلائی گئی کہ پیشتر بنگالی مسلمان غیر قانونی طور پر آسام آئے ہیں لہذا ان کے نام ووٹروں کی فہرست سے ہٹائے جائیں۔
اس سلسلے میں مسلمان اور ہندوؤں رہنماؤں کے درمیان میں بحث و مباحثہ شروع ہو گیا۔ لیکن کچھ شر پسند ہندؤوں نے مقامی ہندو آـادی کو اتنا طیش دلایا کہ نیلی قتل عام کا سانحہ پیش آیا۔[2]
تاریخ
ترمیم1978ء میں منتخب نمائندے ہیرالال پٹواری کی وفات ہوئی تو منگلڈوئی لوک سبھا حلقے میں خالی ہونے والی اس نشست کے لیے ضمنی انتخاب کی ضرورت پیش آئی۔ انتخاب کے عمل کے دوران میں، مبصرین نے محسوس کیا کہ مندرج ووٹروں کی تعداد ڈرامائی طور پر بڑھ گئی تھی۔ آل آسام اسٹوڈنٹس یونین نے الیکشن کمشن سے مطالبہ کر دیا کہ انتخابات اس وقت تک کے لیے کو ملتوی کر دیا جائے جب تک تمام تارکین وطن افراد کا نام مندرج ووٹروں کی فہرست سے نکال نہیں دیا جاتا۔ اس سے آسام تحریک کا آغاز ہوا۔
تیزی
ترمیم12 نومبر 1979ء کو آل آسام اسٹوڈنٹس یونین اور آل آسام گانا سنگرام پریشد نے مشترکہ طور پر تمام تعلیمی اداروں کو بند کرنے، ریاست میں ہڑتال اور مرکزی حکومت کے دفاتر میں کام بند کرنے کی اپیل کر دی۔ دسمبر 1979 کے پہلے ہفتے میں اجتماعی طور پر پولنگ دفاتر کے ساہنے دھرنے دیے جہاں امیدواروں کو نامزد کیا جا سکتا ہے۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ Sanjib Baruah (1999)۔ India Against Itself: Assam and the Politics of Nationality (بزبان انگریزی)۔ University of Pennsylvania Press۔ صفحہ: 115۔ ISBN 0-8122-3491-X۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مئی 2018
- ↑ انسائیکلوپیڈیا احیائے اسلام، حصہ 2، صفحہ 64، شاہکار بک فاؤنڈیشن، لاہو۔ 2008ء