آشا (AASHA) کام کے مقام پر جنسی ہراساں کرنے کے خلاف اتحاد ایکشن ایڈ پاکستان، بیداری، ورکنگ ویمنز سپورٹ سینٹر، ورکنگ ویمن ایسوسی ایشن، فیڈرل ویمنز ویلفیئر ایجنسی، کونسکینکے پروموٹرس، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ اور ورکنگ وومن آرگنائزیشن سمیت غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کا اتحاد ہے۔[1] آشا لاہور اور کراچی میں کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے بارے میں شعور اجاگر کرتی ہے اور پالیسی سازوں کو اس کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے کوششں کرتی ہے۔[2]

خدمات

ترمیم

اتحاد نے اہم حکومتی عہدہ داروں اور آئی ایل او اور مزدور یونینوں، نجی شعبے، شہری تنظیموں، تعلیمی اداروں اور کام کرنے والی عورتون کے ساتھ مل کر جدو جہد جاری رکھی۔ بالآخر صوبائی اور قومی سطح پر مشوروں کے بعد باقاعدہ ادارون میں جنسی خوفزدگی کے خاتمے کے لیے اتفاق رائے سے ایک حکمت عملی ترتیب دی گئی۔ نجی شعبے کی طرف سے پانچ سال تک قابل عمل حکمت عملی اپنانے کے بعد، آشا کے اراکان کو حوصلہ ملا کہ وہ اسے قانونی صورت دیں۔ آشا نے پی پی سی کے سیکشن 509 میں ترمیم کا فیصلہ کیا تاکہ پاکستان کی عورتوں کو جنسی خوفزدگی کے خلاف باقاعدہ کام کے شعبے میں، کام کے ماقم پر عورت کو ہراساں کرنے کے خلا فتحفظ فراہم کیا جا سکے۔ ڈاکٹر فوزیہ سعید نے آشا کی طرف قانون سازی کا مسودہ مرتب کیا، جس پر قانونی ماہرین نے 2007ء تک کام کیا اور اسے مختلف حکومتی عمل داریوں میں آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ حکومت، کابینہ، پارلیمان اون ایوان بالا کے ساتھ دو برس تک مسلسل اور سخت محنت کے بعد دونوں قوانین قومی اسمبلی اور ایوان بالا میں اکثریت رائے سے منظور ہوئے۔[3]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Nadia Jajja (18 ستمبر 2017)۔ "Women and sexual harassment at the workplace"۔ Herald Magazine (بزبان انگریزی) 
  2. "The Protection against Harassment of Women at the Workplace Act 2010: A Legislative Review"۔ Shaikh Ahmad Hassan School of Law (بزبان انگریزی)۔ 30 جنوری 2017 
  3. Nosheen Abbas (18 مارچ 2010)۔ "Sexual Harassment in Pakistan"۔ HuffPost (بزبان انگریزی) 

بیرونی روابط

ترمیم