پاکستان میں عصمت دری

پاکستان میں جنسی تشدد

پاکستان میں عصمت دری ایک قابل سزا جرم ہے۔ پاکستانی قوانین کے تحت پاکستان میں عصمت دری کی سزا، دس سے پچیس سال تک کی قید یا سزائے موت ہے۔ اجتماعی عصمت دری سے متعلق مقدمات میں، سزا یا تو سزائے موت یا عمر قید ہے۔[1] پاکستان میں عصمت دری کے واقعات کے مقدمات چلانے میں ڈی این اے ٹیسٹ اور دیگر سائنسی شواہد استعمال ہوتے ہیں۔[2][3][4][5]

مختاراں مائی کے ساتھ سیاسی طور پر منظور شدہ عصمت دری کے بعد پاکستان میں عصمت دری کا موضوع، بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنا۔[6][7] غیر سرکاری تنظیم، وار اگینسٹ ریپ پاکستان میں عصمت دری کی شدت اور پولیس کی اس سے عدم توجہی کے دستاویز اکٹھے کیے ہیں۔[8] مطالعہ خواتین کی پروفیسر شہلا ہیری کے مطابق، پاکستان میں عصمت دری کو، معمول، معاشرتی کردار، خاص قدر یا طرز عمل سمجھا جاتا ہے اور ریاست کی خاموش اور بعض اوقات واضح منظوری شامل ہوتی ہے۔[9][10] سابقہ وکیل عاصمہ جہانگیر جو خواتین کے کی تنظیم وویمن ایکشن فورم کی شریک بانی تھیں، ان کے مطابق، پاکستان میں زیر حراست عورتوں میں سے، بہتر فیصد سے زیادہ خواتین کا جسمانی یا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔[11]

2019ء میں، حکومت پاکستان نے ملک بھر میں ایک ہزار خصوصی عدالتیں قائم کیں۔ یہ خصوصی عدالتیں صرف خواتین پر تشدد سے متعلق امور کو حل کرنے پر توجہ دیتی ہیں۔ انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے ان خصوصی عدالتوں کے قیام کو سراہا۔[12]

پاکستانی قانون کے مطابق ریپ کی تعریف ترمیم

پاکستانی قانون کی رو سے "ریپ" صرف اس صورت میں ہوتا ہے جب کسی عورت کے ساتھ اس کی مرضی کے بغیر جماع (sexual intercourse) کیا جائے۔ ملاحظہ کیجیے: مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 375۔اسی طرح "زنا" صرف اس جرم کو کہا جاتا ہے جب مرد اور عورت، جن کا آپس میں نکاح نہ ہو، جماع کریں۔ ملاحظہ ہو: جرمِ زنا (نفاذ حدود) آرڈی نینس کی دفعہ 4۔ پاکستانی قانون کے مطابق مدرس یا استاد کی شاگرد سے زیادتی کو قانون کی رو سے "غیر فطری جرائم" (unnatural offences) میں شمار کیا جاتا ہے اور اگر ایسے جرائم میں دبر میں دخول (carnal intercourse) ثابت ہو، تو جرم کی سزا عمر قید ہو سکتی ہے۔ دیکھیے: مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 377۔ اگر دبر میں دخول تو ثابت نہیں ہو سکا لیکن دیگر افعال ثابت ہوں جن کو قانون غیر فطری جرائم میں شمار کرتا ہے، تو اس صورت میں جرم کو جنسی بدسلوکی (sexual abuse) کہا جاتا ہے اور اس کی سزا سات سال تک قید یا/اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ ہے۔ دیکھیے: مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 377 اے اور بی۔ مدرس یا استاد کی لڑکے سے زیادتی کو fornication بھی نہیں کہا جا سکتا جو "زنا مستوجبِ تعزیر" کا نیا نام ہے۔ ملاحظہ کیجیے: مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 496 بی۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. "Protection of Women (Criminal Laws Amendment) Act, 2006"۔ pakistani.org۔ 1 دسمبر 2006 
  2. "Criminal Law (Amendment) (Offense of Rape) Act 2016"۔ The Punjab Commission on Status of Women۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اگست 2020 
  3. Kathleen Fenner Laird (2008)۔ Whose Islam? Pakistani Women's Political Action Groups Speak Out۔ صفحہ: 101۔ ISBN 978-0-549-46556-0 
  4. Aamer Ahmed Khan (8 ستمبر 2005)۔ "Pakistan's real problem with rape"۔ BBC 
  5. Farhad Karim (1996)۔ Contemporary Forms of Slavery in Pakistan۔ Human Rights Watch۔ صفحہ: 72۔ ISBN 978-1-56432-154-1 
  6. Reuters (2015-04-10)۔ "Lahore gets first women-only auto-rickshaw to beat 'male pests'"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اکتوبر 2019 
  7. Shahla Haeri (2002)۔ No Shame for the Sun: Lives of Professional Pakistani Women (1st ایڈیشن)۔ Syracuse University Press۔ صفحہ: 163۔ ISBN 978-0-8156-2960-3۔ institutionalized and has the tacit. 
  8. Jan Goodwin (2002)۔ Price of Honor: Muslim Women Lift the Veil of Silence on the Islamic World۔ Plume۔ صفحہ: 51۔ ISBN 978-0-452-28377-0 
  9. "Pakistan to set up special courts to tackle violence against women"۔ Reuters۔ 20 جون 2019