پاکستان میں جنسی تعلیم

پاکستان میں جنسی تعلیم کے مواقع سے متعلق مضمون

پاکستان میں جنسی تعلیم ایک حساس موضوع ہے۔ جہاں عوام کا ایک گوشہ اسکولوں اور کالجوں میں جنسی تعلیم کے حق میں ہے، وہیں عوام کا ایک معتد بہ حصہ اس کے خلاف ہے۔ لوگ مغربی دنیا کی مثالیں دیتے ہیں جہاں جنسی تعلیم کا رجحان بے حد عام ہونے کے ساتھ ساتھ عوام میں جنسی آزادی، عریانیت، جنسی بے راہ روی، وغیرہ بہت عام ہو چکے ہیں۔ تاہم کچھ سنجیدہ انداز میں ملک کی وافر اکثریت مسلمانوں کی مذہبی کتابوں کا بھی حوالہ دیتے ہیں، جن میں جنسی تعلیمات موجود ہیں۔ اسلام نے جس طرح سے جلق لگانے پر روک لگائی، زنا کو گناہ عظیم قرار دیا ہے، نکاح کو ایک مثبت معاشرے کی اہم ضرورت قرار دیا ہے، اولاد کو شادی کا ایک مقصد قرار دیا ہے، دس سال کی عمر کے بعد اولاد اور ماں باپ کو الگ سونے کی ہدایت دی ہے، یہ مثالیں ہیں کہ مذہب میں جنسی اخلاق اور جنسی ہدایات موجود ہیں جن پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ غالب مسلمان اکثریت کے بیچ ایک قلیل التعداد آبادی ایل جی بی ٹی حقوق کی بھی حامی۔ ملک میں ہم جنس پسندوں کی بھی تعداد ہے، اگر چیکہ یہ کم ہے اور غالب اکثریت کے مقابلے یہ اقلیت میں ہیں یا "جنسی اقلیت" ہیں، جیسا کہ یہ لوگ خود کو کئی ملکوں میں بتاتے ہیں، جہاں زیادہ تر لوگ عام جنسی تعلقات اور رشتوں کے بندھنوں سے بندھتے ہیں۔

پاکستان میں مخنث یا ہجڑوں کی بھی کافی تعداد ہے۔ یہ لوگ جنسی حقوق سے کہیں زیادہ اپنی پہچان تسلیم کروانے پر زور لگاتے ہیں۔ ایک طویل جد و جہد کے بعد پاکستان کے سپریم کورٹ نے 2011ء میں ایک فیصلہ سنایا جس کی رو سے مخنث یا ہجڑے لوگ ایک تیسرے جنس کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ لوگ نہ تو مرد ہیں اور نہ خواتین ہیں۔ اس تسلیم شدگی کے ساتھ ان لوگوں کے لیے نیا نام شی میل بھی قانونی حیثیت اختیار کر گیا۔ جہاں تک حقوق کی بات ہے، انھیں شناختی کارڈ، رائے دہی کا حق اور انتخابات میں امیدواری کے مواقع حاصل ہوئے۔ [1]

پاکستان کے بڑے شہروں کے اسکولوں میں جنسی تعلیم ترمیم

پاکستانی معاشرے کے بڑے شہروں میں اسکولی سطح پر جنسی تعلیم کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ Life Skilled Based Education کے نام پر سندھ ٹکسٹ بک بورڈ کے منظور شدہ نصاب میں چھٹی سے دسویں تک کے بچوں اور بچیوں کو یہ پڑھایا جا رہا ہے کہ ان کا کسی سے جنسی تعلق کس نوعیت کا ہونا چاہیے۔ اسکولی بچوں کو اختلاط کے دوران احتیاطی تدابیر سے بھی واقف کیا جاتا ہے۔[2]

پاکستان کے دیہی علاقوں میں جنسی تعلیم ترمیم

’ویلج شادآباد آرگنائزیشن‘ (وی ایس او) نامی ادارے کی کوششوں سے پچھلے 20 سال سے بچوں کے حقوق اور تعلیم کے میدان میں کئی کام ہوئے ہیں جن میں علاقے کے 33 میں سے آٹھ اسکولوں میں پچھلے ڈیڑھ سال سے بچوں کو جنسی تعلیم بھی دی جا رہی ہے۔ اس طرح کا نظم کئی اور پاکستانی قصبوں دیگر تنظیموں کی جانب سے کیا گیا ہے۔[3]

مطبوعات ترمیم

اس موضوع پر حالیہ عرصے میں کئی کتابیں شائع ہوئی ہیں جن میں اکاسی سالہ ڈاکٹر مبین اختر کی کتاب Sex Education for Muslims (مسلمانوں کے لیے جنسی تعلیم) پاکستان میں شائع ہوئی تھی۔[4]

اس تعلق سے کئی اور کتابیں بھی منظر عام پر آ چکی ہیں۔ یہ کتابیں انگریزی زبان کے علاوہ پاکستان کی دیگر زبانوں جیسے کہ پنچابی، سندھی، بلوچی اور پشتو میں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ ملک میں کچھ کتابیں انگریزی زبان سے اردو میں ترجمہ ہو کر بھی شائع ہو چکی ہیں۔

مزید دیکھیے ترمیم


حوالہ جات ترمیم

  1. "Politicians of the third gender: the "shemale" candidates of Pakistan"۔ نیو اسٹیٹسمین امریکا 
  2. "جنسی تعلیم کی آڑ میں گھناؤنی سازش !"۔ العربیۃڈاٹ نیٹ 
  3. "پاکستان میں جنسی تعلیم"۔ وائس آف امریکا اردو 
  4. "پاکستان:جنسی تعلیم پر 'متنازع' کتابم"۔ بی بی سی اردو