آفتاب اقبال، فرزند اقبال

علامہ اقبال کے بڑے صاحبزادے۔ آپ علامہ اقبال کی زوجہ کریم بی بی کے بطن سے پیدا ہوئے

آفتاب اقبال علامہ اقبال کے بڑے صاحبزادے۔ آپ علامہ اقبال کی زوجہ کریم بی بی کے بطن سے پیدا ہوئے۔


‎آفتاب اقبال علامہ اقبال کے بڑے بیٹے تھے جو 1899ء میں پنڈدادن خان ضلع شاہ پور میں پیدا ہوئے۔ ان کی ماں علامہ کی پہلی بیوی کریم بی بی تھیں جن سے علامہ کی شادی1893ء میں ہوئی ۔ کریم بی بی علامہ کے انتقال کے آٹھ سال بعد1946ء میں گجرات میں فوت ہوئیں اور وہیں مدفون ہیں۔

‎کریم بی بی کے بطن سے علامہ کو ایک لڑکی معراج بیگم بھی ہوئی ہیں جو19سال کی عمر میں انتقال کرگئیں۔ اگرچہ بچپن ہی سے آفتاب اور ان کی بہن معراج اپنی ماں کے ساتھ نانا کے گھر گجرات میں رہتے تھے لیکن آفتاب، اقبال کے والد نور محمد کے نور نظر تھے اور نور محمد ہی نے ان کا نام آفتاب رکھا تھا۔

‎علامہ اقبال نے آفتاب اقبال کو سکاچ مشن ہائی اسکول میں شریک کروایا جہاں انھوں نے1916ء میں میٹرک کا امتحان درجہ اوّل میں پاس کیا۔ پھر سینٹ اسٹیفن کالج دہلی سے بی اے کا امتحان بھی فلسفہ میں آنرز کے ساتھ پاس کیا اور1921ء میں ایم اے کی ڈگری فلسفہ میں حاصل کی۔ آفتاب کے ماموں کیپٹن غلام محمد اور نانا ڈاکٹر عطا محمد نے انھیں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان روانہ کیا جہاں آفتاب نے1922ء میں لندن یونیورسٹی سے فلسفہ میں بی اے درجہ اوّل میں کامیاب کیا۔1924ء میں اسی یونیورسٹی سے ایم اے کرکے دوسال کے لیے ہندوستان آئے اور پھر انگلستان جاکر تین سال تک وہاں اسکول آف اورنٹئیل اسٹڈیزمیں ملازم ہوئے۔

‎اسی دوران لنکن انزمیں داخلہ لے کر بارایٹ لا میں کامیابی حاصل کی لیکن مالی مشکلات کی بنا پر وکالت نہ کرسکے سراکبر حیدری نے عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد میں ملازمت دینے کی کوشش کی لیکن کوئی مناسب جگہ ان کے لیے یونیورسٹی میں نکل نہ سکی۔ آفتاب نے کچھ عرصے کے لیے اسلامیہ کالج لاہور میں بحیثیت صدر شعبہ انگریزی ملازمت کی لیکن1942ء میں بحیثیت بیرسٹر پریکٹس شروع کی اور پاکستان کے قیام کے بعد وہ مستقل طور پر کراچی منتقل ہو گئے اور بیرسٹری پریکٹس میں آخری عمر تک مصروف رہے اور یہیں پر رشیدہ بیگم سے شادی کی۔ آفتاب اقبال کا81سال کی عمر میں14 اگست 1979ء کو لندن میں انتقال ہوا ان کے جنازے کو کراچی لاکر قبرستان سخی حسن میں دفن کیا گیا۔

‎یہ ایک حقیقت ہے کہ علامہ اقبال کی ازدواجی زندگی ہر گونہ مسائل سے دوچار تھی۔ علامہ اپنی پہلی شادی سے خوش نہیں تھے اور کریم بی بی کو طلاق دینا چاہتے تھے۔ لیکن کریم بی بی نے طلاق کے بدلے جدازندگی بسر کرنے کو ترجیح دی اور علامہ اقبال اپنی آخری عمر تک ان کے اخراجات برداشت کرتے رہے۔ اس شادی کے بارے میں9 اپریل 1909کو عطیہ فیضی کو لکھتے ہیں ’’میری تنہا آرزویہ ہے کہ اس شہر سے کہیں باہر نکل جاؤں لیکن تم جانتی ہو کہ اپنے بھائی کا احسان مند ہوں جو میرے اس شہر سے باہر جانے کے مخالف ہیں۔میری زندگی سخت مصیبت زدہ ہے۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں کسی طرح سے کریم بی بی کے ساتھ زندگی بسرکروں جو ممکن نہیں، میں پہلے ہی سے اس شادی سے خوش نہ تھا میں حاضر ہوں کہ اخراجات کفالت برداشت کروں لیکن اس کے ساتھ زندگی بسر نہ کروں۔‘‘

‎عطیہ فیضی نے اس شادی کی شکست کی وجہ دونوں کی فکری صلاحیتوں میں شدید فرق اور طبیعتوں میں اختلاف بتایا ہے۔ اس شادی کے اختلافات اور دوری کی وجہ سے آفتاب اقبال، علامہ کی محبت اور شفقت سے محروم ہوئے اور چونکہ وہ اپنی ماں کے ہم خیال تھے اور اس شادی کی شکست کے پورے ذمہ دار علامہ کو سمجھتے تھے۔ اس لیے روز بروز ان کے اور علامہ کے درمیان تعلقات خراب ہوتے گئے۔ نذیر نیازی ’’دانائے راز‘‘ میں اس شادی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس شادی کی شکست کی وجہ کریم بی بی کے اخلاق اور ان کی خشک طبیعت تھی اس کے علاوہ خود آفتاب کی رفتار وگفتار انھیں علامہ سے دور کھینچتی جاتی تھی۔

‎جاوید اقبال نے خود اپنی کتاب ’’زندہ رود‘‘ میں لکھا کہ میں ان مطالب کو بیان کرتے ہوئے کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا کہ علامہ نے جوروش اختیار کی تھی اگرچہ وہ عمدہ نہ تھی لیکن روش معقول تھی۔ آفتاب ضدی تھے او رہمیشہ علامہ کے خلاف کھڑے ہوتے اور علامہ کے خلاف جو اتہامات لگائے جاتے وہ ان سے فائدہ اٹھاتے تھے۔

‎آفتاب اقبال اپنے انگلستان کے قیام کے دوران شدید مشکلات سے دوچار تھے چنانچہ جب انھیں معلوم ہوا کہ ریاست حیدرآباد کا وفد سراکبر حیدری کی قیادت میں انگلستان آیا ہوا ہے تو انھوں نے سراکبر حیدری سے مل کر اپنی مالی مشکلات کا ذکر کیا اور بتایا کہ امتحانی فیس نہ ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی نے انھیں سند نہیں دی ہے۔ چنانچہ اکبرحیدری نے انھیں 190پونڈ قرض دلوایا لیکن حیدرآباد میں مہاراجا کشن پرشاد نے اس قرض کو عطیہ میں تبدیل کر دیا۔

‎علامہ اقبال ہی کی نسبت سے اکبر حیدری نے یکم جنوری 1931ء کو فخر یار جنگ کو ایک سفارشی خط لکھا اور جامعہ عثمانیہ میں آفتاب کو ملازمت دلانے کا کہا لیکن اس وقت جامعہ میں کوئی مناسب جگہ خالی نہ تھی۔1931ء میں آفتاب انگلستان سے لاہور آئے اور29مارچ کو سراکبر حیدری کے خط میں اپنی مالی مشکلات علامہ کی عدم التفات اور جائداد سے محرومی کا شکوہ کچھ اس انداز میں کیا کہ سراکبر حیدری نے11اپریل 1931میں علامہ کو لکھا ’’اگرچہ مجھے آفتاب پر آپ کی خفگی کی وجہ معلوم نہیں لیکن میں یہ کہنے کی جرأت کرتا ہوں کہ آپ اس کی بحالی پر غور کریں۔‘‘

‎علامہ اقبال نے2مئی 1931ء کو اکبر حیدری کو لکھا۔

‎’’قصہ طولانی اور اس کا بیان اذیت ناک ہے۔ دراصل میں دہلی میں آپ سے ملاقات کرنے سے بھی اس لیے کترایا کہ میں نے سو چا وہ ہماری گفتگو کا موضوع بن سکتا ہے۔ اور اس سے کچھ دیر کے لیے میرا ذہنی سکون برباد ہوگا۔میں پہلے ہی اپنی بساط سے زیادہ اس کی مدد کر چکا ہوں اس طرز عمل کے باوجود وہ میرے ساتھ اور خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ کرتا رہا ہے۔ کوئی باپ تحمل کے ساتھ وہ شرارت آمیز خطوط نہیں پڑھ سکتا جو اس نے مجھے لکھے ہیں۔ اب جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ صرف بلیک میلنگ کے منصوبے کا ایک حصہ ہے جو وہ کچھ عرصے سے کرتا آرہا ہے۔ بہرحال یہ میرے لیے ممکن نہیں کہ میں اس کی مدد کرسکوں۔ میں ایک بوڑھا آدمی ہوں جس کی صحت بھی ڈانواں ڈول رہتی ہے کسی طرف سے کوئی امید نہیں، دو چھوٹے بچے ہیں جن کی پرورش کرنا ہے۔

‎اگر میں کوئی مالدار آدمی ہوتا تو شاید اس کی کچھ اور مدد کردیتا اگرچہ وہ اس کا مستحق نہیں۔ میں سمجھتا ہوں میرے حالات کے بارے میں آپ کوکچھ علم نہیں۔ فطرت نے مجھ کو کچھ چیزیں دیں ہیں او رکچھ نہیں دیں میں پوری طرح قانع ہوں اور میرے لبوں پر کبھی حرف شکایت نہیں آیا۔ شاید آپ پہلے آدمی ہیں جسے میں نے یہ باتیں لکھی ہیں۔ میں جانتا ہوں آپ نے اس کی مدد کی ہے کچھ اس لیے کہ اس نے آپ کو خوب متاثر کیا ہے اور کچھ میرے تعلق سے ’’آپ کی فیاض فطرت اس کے سوا اور کچھ کر بھی نہیں سکتی تھی مگر مجھے یقین ہے آپ کا اس پر اور مجھ پر بڑا کرم ہوتا اگر اس کو کوئی موزوں ملازمت جامعہ عثمانیہ میں دلاسکتے‘‘ ۔

‎اس خط کا جواب 11مئی1931ء کو سراکبر حیدری نے دیا اور علامہ کی مجبوری کو تسلیم کیا اور انھیں یقین دلایا کہ وہ عثمانیہ یونیورسٹی میں ان کو کوئی موزوں جگہ دلوانے کی اپنی کوشش جاری رکھیں گے۔ علامہ اقبال نے14مئی کو اس خط کے جواب میں لکھا’’ یہ نوجوان اب تک70ہزار روپے اپنے اوپر خرچ کرچکا ہے۔ اس میں سے خود اس کے بقول اس نے 50 ہزار روپے انگلستان میں قرض لیے ہیں۔ میں نے اس کی ماں کو دس ہزار روپے دیے تھے جو اس نے سب کے سب اس پرخرچ کردیے اور یہ رقم بھی اس کے علاوہ ہے جو اس نے اوراسکے باپ نے اس لڑکے کو دیے۔

‎اس کی انگلستان سے واپسی کے صرف ایک دو ماہ قبل مجھے ایک ہزار روپے دینے پر مجبور کیا گیا۔ اس کے باوجودہ اکثر وبیشتر بلیک میلنگ پر مبنی خطوط بھیجتا رہتا ہے۔ میں اس کے تازہ ترین خط کی نقل آپ کو ارسال کرنا چاہتا تھا مگر میں ایسا نہیں کرتا بالخصوص اس واسطے کے میں نے سوچا اس کے بعد آپ اس کے ساتھ ہمدردی کرنا ترک فرمادیں گے۔ فارسی کا شعر میری موجودہ کیفیت ذہنی کے مطابق ہے۔

‎آں جگر گوشہ ہماں شدکہ من اوّل گفتم

‎کہ چو شوید لبش از شیر جگر خوارہ شود

‎’’یعنی یہ جگر ٹکڑا وہی ہوا جو میں نے شروع میں کہا تھا کہ جب دودھ منہ سے پونچھے گا تو جگر خوار بن جائے گا‘‘

‎اگرچہ کچھ اطلاعات کے مطابق اکبر حیدری اور علامہ کے درمیان اس مسئلہ پر گفتگو جاری رہی۔ چنانچہ اکبرحیدری 12 فروری 1937ء کے خط میں لکھتے ہیں۔ ’’اگر مجھے پہلے ہی سے ان ناخوشگوار حالات کا علم ہوتا جس کی آپ نے نشان دہی کی ہے تو بلاشبہ میں اس اپیل کو نظر انداز کردیتا‘‘۔

‎آفتاب اقبال علامہ کے انتقال کے چالیس(40) سال بعد تک زندہ رہے لیکن وہ اب ہمیشہ اقبال کے مدح خواں تھے اور ہمیشہ اپنے والد کے محاسن پر گفتگو کرتے تھے۔ جن افراد نے کراچی کے یوم اقبال کے جلسوں میں شرکت کی ہے وہ جانتے ہیں کہ آفتاب اقبال ہر سال ان جلسوں میں ولنشین اور فلسفیانہ تقریر کرتے اور علامہ کے کلام پر تبصرے کرتے تھے۔

والد کی طرح وکالت کی تعلیم حاصل کی اور 1942ء میں لاہور ہائی کورٹ سے بحیثیت بیرسٹر پریکٹس شروع کی۔ قیامِ پاکستان کے بعد کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ آفتاب اقبال جب تک زندہ رہے، کراچی میں یومِ اقبال کی تقریبات میں ان کی شرکت لازمی ہوتی تھی۔ آپ کی تقاریر اکثر علامہ اقبال کے کلام کی نہایت پُر تاثیر توضیح ہوتی تھیں۔ آپ کا انتقال 13 اگست، 1979ء کو لندن میں ہوا اور بعد ازاں آپ کے جسدِ خاکی کو کراچی میں قبرستان سخی حسن کے مشرقی گوشہ میں سپردِ خاک کیا گیا۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم

بیرونی روابط

ترمیم