آلھا اُودل ہندوستان کے قدیم راجپوتوں کی ایک رزمیہ داستان ہے۔ دہلی سے لے کر بہار تک شاید ہی کوئی گاؤں یا قریہ ایسا ہو جہاں بھاٹوں نے آلھا اودل کی داستان نہ گائی ہو۔ اور لوگوں کے دل اس سے نہ گرمائے ہوں۔

قدیم زمانے میں ہندوستان کے راجپوت فرمانرواؤں کے دربار میں ایک بھاٹ یعنی مغنی بھی ہوا کرتا تھا ، جو اپنے مالک اور اس کے اسلاف کی بہادری کے کارناموں کو اپنے دماغ میں محفوظ رکھتا تھا اور انھیں فخریہ گا کر سنایا کرتا تھا اس نوع کی منظوم داستانوں میں سب سے زیادہ شہرت “پرتھی راج راسو “ کو حاصل ہوئی جو اس عہد کے مشہور بھاٹ “ چند بردائی “ کی تصنیف تھی۔

آلھا اودل کے مصنف کے متعلق وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بعض کا خیال ہے کہ جگ نایک ( فرمانروائے مہوبا پرتھی کے بھانجے )کی تصنیف ہے۔ یہ روایت آلھا گانے والوں میں سینہ بسینہ منتقل ہوتی چلی آئی ہے۔ اس داستان کا کوئی قدیم نسخہ کبھی دستیاب نہیں ہوا۔

ان روایات کو کتابی صورت میں منتقل کرنے کا خیال سب سے پیسے مسٹر الیٹ کے ذہن میں پیدا ہوا جو انیسویں صدی کے آخر میں بمقام فرخ آباد مامور تھے۔ انھوں نے تین چار پرانے پرانے آلھا گانے والوں کو جمع کیا اور ان کی یاد داشت کے مطابق اس داستان کو قلمبند کیا اور اس طرح سب سے پہلے یہ قنوجی ایڈیشن مرتب کیا گیا۔ اس کے بعد مسز اسمتھ نے بہار اور جارج کریسن نے بندلکھنڈ کے دوران قیام میں آلھا کے کچھ اور حصے بھی مرتب کر کے شائع کیے ۔

مسٹر الیٹ نے یہ مجموعہ مرتب کرنے کے بعد اس بات کی بھی کوشش کی کہ اس کا منظوم ترجمہ انگریزی میں ہوجائے انھوں نے مسٹر واٹر فیلڈ کو جو اس وقت یو-پی کے اکاؤنٹنٹ جنرل اور ہندوستان کی مختلف زبانوں کے ماہر تھے۔ اس طرف متوجہ کیا۔ چنانچہ انھوں نے اس کا ترجمہ کیا اور کچھ حصہ اس کا “ نو لکھا ہار "کے عنوان سے 1875 عیسوی سے لے کر 1876 عیسوی تک تک کلکتہ ریویو میں شائع ہوتا رہا۔ جب ؁ 1907 میں ان کا انتقال ہو گیا تو ان کے بیٹے مسٹر فریب واٹر فیلڈ نے اپنے باپ کے تمام مسودات مسٹر گریرسن کو دے دیے اور انھوں نے اس ترجمہ کو مکمل کر کے ؁ 1923 عیسوی میں شائع کیا۔

اس مجموعے کے چھوٹے بڑے 23 حصے ہیں اور سب سے بڑاحصہ وہ ہے جس میں اُودل کے کارنامے راجے ماڑد (مانڈو) کے خلاف دکھلا ئے گئے ہیں۔

حوالہ جات

ترمیم

1. شاہکار معلومات انسائیکلو پیڈیا، صفحہ نمبر 758-759، جلد نمبر 26۔ از سید قاسم محمود، عطش درانی ، شارع فاطمہ جناح ، لاہور