آلہ ردعمل ، شوکو بائی
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
اردو میں اپ اس کو “آگ پریرک“ یا کہ “رد عمل کنورٹر“ بھی کہہ سکتے ہیں۔ انگریزی میں اس کو catalytic converter کہتے ہیں۔ شوکوبائی! انجن والی گاڑیوں کے سیلنسر میں لگا ایک ڈھولکی نما پرزہ، جو خطرناک گیسوں سے ماحول کو بچانے کے لیے لگایا جاتا ہے۔ اس ڈولکی میں سرامک کا سوراخ دار برتن ہوتا ہے، جس میں، پلاٹینیم، پلوڈیم ،اور روڈئیم نامی قیمتی دھاتیں شامل ہوتی ہیں۔ پلاٹینم جب گرم ہوتا ہے تو اس کے گرد آکسیجن کے ایٹم اکٹھے ہو جاتے ہیں، انجن سے نکلنی والی گیس ہائیڈروجن کے ایٹم جب آکسیجن سے ٹکراتے ہیں تو، پانی بن کر سیلینسر سے باہر نکل جاتے ہیں۔ سونا ( گولڈ) بھی یہ کام کر سکتا ہے۔
لیکن سونا پانچ سو ڈگری کی حرارت پر کام چھوڑ جاتا ہے۔ ایک عام انجن نو سو ڈگری تک کی حرارت پیدا کرتا ہے، اتنی زیادہ حرارت کے لیے روڈئیم یا پلاٹینیم ہی کام کر سکتے ہیں۔ اس عمل میں ہائیدروجن نامی ماحول دشمن گیس ختم ہو جاتی ہے۔ ایک عام پٹرول انجن میں پٹرول کے جلنے سے تین گیسیں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک ہائیڈرو کاربن جس کا کیمیائی فارمولا ہے ،ایچ سی1۔ دوسری ،کاربن مونو آکسائیڈ جس کا کیمیائی فارمولا ہے، سی او1۔ تیسری، نائیٹروجن آکسائیڈ، جس کا کیمیائی فارمولا ہے، این او ٹو، یعنی آکسیجن کا ایک ایٹم شامل ہو کر ہائیڈروجن پانی بن گئی ہے۔ ہائیڈروجن، شوکوبائی سے گذر کر پانی میں میں تبدیل ہو جاتی ہے، پانی کا کیمیائی فارمولا ہے، ایچ ٹو او،۔ کاربن مونو آکسائیڈ، کاربن ڈائی آکسائڈ میں تبدیل ہو جاتی ہے، جس کا کیمیائی فارمولا ہے، سی او ٹو، یعنی آکسیجن کے ایٹم ڈبل ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح نائیٹروجن اکسائیڈ، صرف نائیٹروجن بن جاتی ہے یعنی اس میں سے آکسیجن کا ایک ایٹم نکل جاتا ہے۔ اسی طرح پلوڈیم اور روڈیئم بھی دیگرماحول دشمن گیسوں کو ماحول دوست گیس یا مائع میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ گاڑیوں میں شوکوبائی لگانے کا قانون، امریکا نے انیس سو اٹھتر (1978ء) میں پاس کیا تھا۔ اس کے بعد بننے والی امریکی اور جاپانی گاڑیوں میں شوکوبائی لگائی جاتی ہے۔ شروع میں جو شوکوبائی لگائی جاتی تھی اس کی ساخت، آج کی شوکوبائی سے مختلف ہوتی تھی۔ پرانی شوکوبائی میں سلور ( ایلومینئم) کی گولیوں پر پلاٹینیم چڑھا کر ان گولیوں کو ایک ڈبہ نما گزرگاہ میں رکھ دیا جاتا تھا، انجن کی گیس سائلینسر میں سے ان گولیوں سے ٹکرا کر گزرتی تھی۔ انیس سو بانوے (1992ء) میں سرامک کی بنی شوکوبائی گاڑیوں میں لگائی جانے لگی، جو گولیوں والی شوکوبائی کی نسبت بہتر نتائج دیتی ہے۔ لیکن اس شوکوبائی میں قیمتی دھاتوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، کوئی دس سال پہلے سے بہت سی گاڑیوں میں میٹل ( لوہے) کی جالی نما پتری سے کام لیا جا رہا ہے۔ میٹل کی شوکوبائی سے کار میکروں کا قیمتی دھاتوں پر انحصار کم ہوا ہے جس کی وجہ سے ان دھاتوں کی قیمت میں بھی ایک ٹھہراؤ پیدا ہوا ہے۔ ڈیزل انجن کے سائلینسر میں بھی شوکوبائی لگائی جاتی ہے، جو حجم میں بڑی ہوتی ہے۔ حجم میں بڑی ہونے کی وجہ سے اس میں لگائی جانے والی قیمتی دھاتوں کی مقدار کم ہوتی ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں یہ سکتے ہیں کہ اس شوکوبائی کو میں سرامک کے حجم کو بڑھا کر قیمتی دھاتوں پر انحصار کو کم کیا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، پٹرول انجن کی شوکوبائی کے ایک کلو سرامک سے جتنی مقدار قیمتی دھاتوں کی نکلتی ہے۔ ڈیزل کے انجن کی شوکوبائی کے سرامک میں سے اتنی مقدار تین کلو گرام سرامک سے اخذ کی جا سکتی ہے۔