آمنہ افضلی

افغان سیاست دان

آمنہ صفی افضلی (پیدائش 1957ء [1] ) افغانستان کی ایک سیاست دان ہیں، جو افغان قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد جنوری 2010ء میں کام، سماجی امور، شہدا اور معذوروں کی وزیر بنیں۔ ان سے قبل وہ 2004ء تک آزاد انسانی حقوق کمیشن میں کمشنر کے طور پر خدمات انجام دے چکی ہیں۔ اور وزارت برائے امورِ نوجوانان کی وزیر کے طور پر جب تک یہ وزارت اطلاعات و ثقافت کے ساتھ ضم نہیں ہو گئی۔آمنہ صفی افضلی 1957ء میں افغانستان کے شہر ہرات میں پیدا ہوئیں۔ اس نے 1978ء میں جامعہ کابل کی سائنس فیکلٹی میں اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کی وہ خواتین کے لیے تعلیمی اور تربیتی مراکز کی بانی تھیں۔2010ء میں افغان ارکان پارلیمان نے صدر حامد کرزئی کی نامزد کردہ کابینہ کے بیشتر وزرا کو ایک مسترد کر دیا تھا۔تب پارلیمان میں سترہ نامزد وزرا کے لیے رائے شماری کی گئی جس میں سے دس کو مسترد کر دیا گیا جن میں دو خواتین بھی شامل تھیں، جن میں ایک آمنہ افصلی تھیں۔

آمنہ افضلی
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1957ء (عمر 66–67 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ہرات   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت افغانستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ کابل   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سرکاری ملازم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

زندگی

ترمیم

آمنہ صفی افضلی 1957ء میں افغانستان کے شہر ہرات میں پیدا ہوئیں۔ اس نے 1978ء میں جامعہ کابل کی سائنس فیکلٹی میں اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کی [2] وہ خواتین کے لیے تعلیمی اور تربیتی مراکز کی بانی تھیں اور 1994ء میں کابل میں پہلا مفت اسکول تھا۔ 'رہروان سمیہ'، 'المومنات'، 'پائیوند' اور 'مدر' جیسی کتابیں ان کی نگرانی میں شائع ہوئیں اور جاری کی گئیں۔ انھوں نے 2004ء تک آزاد انسانی حقوق کمیشن میں کمشنر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ وہ جامعی کی ثقافتی فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹوریٹ کی رکن ہیں۔ [3] آمنہ افضلی نے افغان سینٹ میں کہا تھا کہ پاکستان کو یہ بات مان لینی چاہیے کہ وہ اب اپنی سرزمین میں طالبان کو سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت نہیں دے گا۔[4] 2010ء میں افغان ارکان پارلیمان نے صدر حامد کرزئی کی نامزد کردہ کابینہ کے بیشتر وزرا کو ایک مسترد کر دیا تھا۔تب پارلیمان میں سترہ نامزد وزرا کے لیے رائے شماری کی گئی جس میں سے دس کو مسترد کر دیا گیا جن میں دو خواتین بھی شامل تھیں، جن میں ایک آمنہ افصلی تھیں۔[5]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "H.E. Amina Afzali Profile 1"۔ 03 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اگست 2013 
  2. "Amina Afzali details"۔ 03 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اگست 2013 
  3. "Earlier Work"۔ 03 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اگست 2013 
  4. https://urdu.sahartv.ir/news/pakistan-i227851
  5. https://www.dw.com/ur/%DA%A9%D8%B1%D8%B2%D8%A6%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%86%D8%A7%D9%85%D8%B2%D8%AF-%DA%A9%D8%B1%D8%AF%DB%81-10-%D9%88%D8%B2%D8%B1%D8%A7%D8%A1-%DA%A9%DB%92-%D9%86%D8%A7%D9%85-%D9%85%D8%B3%D8%AA%D8%B1%D8%AF/a-5134021

بیرونی روابط

ترمیم