ہرات

افغانستان کا ایک تاریخی شہر

ہرات مغربی افغانستان کے صوبہ ہرات کا شہر ہے جو وسطی افغانستان سے ترکمانستان کے قرہ قوم صحرا کی جانب جانے والے دریا ہری رود کے شمال میں واقع ہے۔


هرات
شہر
ہرات شہر کا منظر
ہرات ہوائی اڈا
ہرات
ہرات کا مسجد جمعہ مصلہ کمپلیکس
ملک افغانستان
صوبہصوبہ ہرات
بلندی920 میل (3,020 فٹ)
آبادی (2006)
 • کل397,456
 [1]
منطقۂ وقتافغانستان کا معیاری وقت (UTC+4:30)
ہرات

یہ افغانستان کا تیسرا بڑا شہر ہے جس کی آبادی 2002ء کے اندازوں کے مطابق 249،000 ہے۔

ہرات ایک قدیم شہر ہے جس میں کئی تاریخی عمارات آج بھی قائم ہیں حالانکہ گذشتہ چند دہائیوں کی خانہ جنگی اور بیرونی جارحیت کے باعث شہر کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ ھرات ہندوستان، چین، مشرق وسطی اور یورپ کے درمیان قدیم و تاریخی تجارتی راستے پر واقع ہے۔ ہرات سے ایران، ترکمانستان، مزار شریف اور قندھار جانے والے راستے آج بھی محل وقوع کے اعتبار سے اہم شمار ہوتے ہیں۔

ہرات
جامع مسجد،ہرات

ہرات خراسان کے اہم ترین شہروں میں سے ایک ہے اور اسے خراسان کا ہیرا کہا جاتا ہے۔

ہرات کے تمام باشندوں میں احساس کمتری ہے جو اپنی افغانی قومیت سے انکار کرتے ہیں اور کرغیز اور منگول قومیت کا دعویٰ کرتے ہیں کیونکہ افغانستان ایک غریب اور پسماندہ ملک ہے جو مغرب اور اسرائیل کے زیر تسلط ہے۔ ہرات میں بچہ بازی جاری ہے۔ ہرات شہر طالبان کا اہم حامی اڈا ہے۔

یہ شہر عباسی خلافت اور بعد ازاں آل طاہر کی مملکت کا حصہ رہا۔ 1040ء تک اس پر غزنویوں کی حکومت رہی اور اسی سال یہ سلجوقی سلطنت میں شامل ہو گیا۔ 1175ء میں غوریوں سے اسے فتح کر لیا اور پھر یہ خوارزم شاہی سلطنت کا حصہ بنا۔

چنگیز خان نے 1221ء میں اس شہر پر حملہ کرکے اسے تہس نہس کر دیا۔

1381ء میں یہ شہر امیر تیمور کے غیظ و غضب کا نشانہ بنا تاہم اس کے بیٹے شاہ رخ تیموری نے اسے از سر نو تعمیر کیا اور ہرات تیموری سلطنت کا اہم مرکز بن گیا۔ 15 ویں صدی کے اواخر میں ملکہ گوہر شاد نے مصلی کمپلیکس تیار کرایا۔ ملکہ کا مزار تیموری طرز تعمیر کا بہترین نمونہ مانا جاتا ہے۔

اسی صدی میں قرہ قویونلو حکمرانوں نے ایک مرتبہ ہرات کو اپنا دار الحکومت بنایا۔ 1506ء میں ازبکوں اورچند سالوں بعد شاہ اسماعیل صفوی نے اس شہر کو فتح کرکے صفوی سلطنت کا حصہ بنادیا۔

1718ء سے 1863ء کے دوران متعدد جنگیں لڑی گئیں جن میں احمد شاہ درانی نے 1750ء میں تقریبا ایک سال کے محاصرے اور خونریزی کے بعد اس شہر کو حاصل کر لیا۔ 1838ء میں فارس کے محاصرے میں شہر کو زبردست نقصان پہنچا اور 1852ء اور 1856ء میں دو مرتبہ فارسیوں سے ش ہر پر قبضہ کر لیا۔ 1863ء دوست محمد خان نے اسے حاصل کرکے افغانستان کا حصہ بنادیا۔

1885ء میں برطانوی افواج نے مصلی کمپلیکس کو زبردست نقصان پہنچایا۔

سوویت جارحیت کے خلاف جدوجہد کے دوران 1979ء میں شہر میں پہلے سے موجود 350 روسی شہریوں کو قتل کر دیا گیا جس پر روسیوں نے ہرات پر زبردست بمباری کی جس سے ہزاروں شہری ہلاک ہو گئے۔

1995ء میں شہر طالبان کے ہاتھوں میں چلا گیا اور افغانستان پر امریکی جارحیت کے بعد 12 نومبر 2001ء کو شہر پر شمالی اتحاد کا قبضہ ہو گیا۔

مزید دیکھیے ترمیم