ابن البارزی
امام | |
---|---|
ابن البارزی | |
(عربی میں: هبة الله بن عبد الرحيم بن إبراهيم بن البارزي الجهني الحموي) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 2 جنوری 1248ء [1] حماۃ [2] |
وفات | 3 جون 1338ء (90 سال)[1] حماۃ |
عارضہ | اندھا پن |
عملی زندگی | |
پیشہ | قاضی ، فقیہ |
مادری زبان | عربی |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
درستی - ترمیم |
ہبۃ اللہ بن عبد الرحیم بن ابراہیم ابو قاسم شرف الدین ابن البارزی جہنی حموی ( 645ھ / 1246ء – 738ھ / 1338ء )، ایک قاضی، حدیث کے حافظ اور شافعی فقہ کے بڑے علماء میں سے تھے۔ وہ حماة کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے طویل عرصے تک حماة کا قضاء بغیر کسی معاوضے کے انجام دیا۔ انہیں کئی بار مصر کا قاضی مقرر کیا گیا، لیکن انہوں نے معذرت کرلی۔ بڑھاپے میں بینائی سے محروم ہوگئے۔ ان کے انتقال پر حماة میں ان کی وفات کے غم میں تمام سرگرمیاں معطل کردی گئیں۔[3]
علم و تصانیف
ترمیماس عالم نے تقریباً 90 سے زائد کتابیں تصنیف کیں، جن میں سے نمایاں درج ذیل ہیں:
- . الزبد فیما علیہ المعتمد - جسے ابن رسلان نے "صفوة الزبد" میں منظوم کیا۔
- . تجرید جامع الأصول فی أحادیث الرسول۔
- . إظهار الفتاوی من أسرار الحاوی - شافعی فقہ پر دو جلدوں میں۔
- . تيسير الفتاوى في تحرير الحاوي۔
- . الشرعة في القراءات السبعة - ایک رسالہ۔
- . الفريدة البارزية - الشاطبیہ کی شرح۔
- . البستان في تفسير القرآن۔
- . توثيق عرى الإيمان في تفضيل حبيب الرحمن۔
- . روضات جنات المحبين - بارہ جلدوں میں۔
- . الناسخ والمنسوخ۔
- . ضبط غريب الحديث - دو جلدوں میں۔
- . بديع القرآن۔
- . رموز الكنوز - فقہ پر منظوم۔
یہ تصانیف ان کی علمی عظمت، فقہی مہارت اور حدیث و قرآن میں گہرے مطالعے کا مظہر ہیں۔
سلالت
ترمیماس عالم کی نسل سے کئی اہم شخصیات کا تعلق ہے، جن میں:
- . قاضی ناصر الدین محمد ابن البارزی - مملوک سلطان مؤید شیخ کے دور میں کاتب السر تھے اور 823 ہجری میں وفات پائی۔
- . قاضی و ادیب کمال الدین محمد بن قاضی ناصر الدین ابن البارزی - مملوک سلطان الظاہر سیف الدین جقمق کے دور میں کاتب السر تھے اور 856 ہجری میں وفات پائی۔
- . خوند مغل بنت قاضی ناصر الدین ابن البارزی - سلطان الظاہر سیف الدین جقمق کی زوجہ تھیں اور 876 ہجری میں انتقال کر گئیں۔[4]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب تاریخ اشاعت: 23 اگست 2017 — مفخرة مدينة حماة وقاضيها الإمام هبة الله بن عبد الرحيم البارزي — اخذ شدہ بتاریخ: 23 جنوری 2021 — سے آرکائیو اصل فی 23 جنوری 2021
- ↑ الجمهرة: ابن البارِزي — اخذ شدہ بتاریخ: 23 جنوری 2021 — سے آرکائیو اصل فی 23 جنوری 2021
- ↑ ابن حجر العسقلاني۔ الدرر الكامنة۔ ج الرابع۔ ص 401
- ↑ ابن حجر العسقلاني۔ الدرر الكامنة۔ ج الرابع۔ ص 401