ابو فتح عثمان بن جنی، جو "ابن جنی" کے نام سے مشہور تھے ۔ ابن جنی، بڑے نحوی اور معتزلی عالم دین تھے۔ جو 322ھ میں موصل میں پیدا ہوئے۔انہوں نے احمد بن محمد موصلی اخفش سے نحو سیکھا اور ابو علی فارسی سے ادب کی تعلیم حاصل کی، جن کے ساتھ قریبی تعلق نے انہیں ممتاز بنایا ۔ اگرچہ وہ بصری مکتب کے پیروکار تھے، مگر کوفی اور بغدادی آراء کو بھی اپنی کتب میں شامل کرتے تھے۔

ابن جنی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 941ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
موصل   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1002ء (60–61 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاد Abū ʿAlī al-Fārisī   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مصنف ،  ماہرِ لسانیات   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حالات زندگی

ترمیم

عثمان بن جنی کی ولادت کے بارے میں مختلف آراء ہیں۔ زیادہ تر ذرائع کے مطابق ان کی پیدائش 321ھ یا 322ھ میں موصل میں ہوئی، جبکہ ابو الفداء نے 302ھ ذکر کیا ہے۔ ابن القاضی کے مطابق وہ 70 سال کی عمر میں 392ھ میں وفات پا گئے، تاہم محمد نجار کا خیال ہے کہ ان کی عمر 90 سال تھی۔ دیگر مؤرخین، جیسے فاضل السامرائی،ان کی ولادت 320ھ کے قریب قرار دیتے ہیں۔ ابن جنی نے موصل میں پرورش پائی ، وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی،مگر ان کے بچپن کی تفصیلات نامعلوم ہیں۔ اس وقت عباسی خلافت سیاسی افراتفری کا شکار تھی، مگر علمی و فکری سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ موصل میں کئی علمی مراکز موجود تھے، جن میں دار علم الموصل نمایاں تھا، جو 323ھ میں قائم ہوا۔ اس علمی ماحول میں ابن جنی شیوخ و علماء کی مجالس سے مستفید ہوئے۔ ابن جنی نوجوانی میں زبانِ عربی کے شغف میں گہرائی تک جا پہنچے اور موصل کی مساجد میں تدریس شروع کی۔ ایک دن ابو علی الفارسی، معروف نحوی عالم، موصل آئے اور ابن جنی کو زبان پر درس دیتے دیکھا۔ ابو علی نے ان سے ایک سوال کیا، لیکن ابن جنی پوری طرح جواب نہ دے سکے، تو ابو علی نے کہا: "تم ابھی کچے ہو اور زبیب بننا چاہتے ہو۔" ابن جنی نے یہ بات سن کر تدریس چھوڑ دی اور ابو علی کے ساتھ بغداد جا کر برسوں ان کے شاگرد رہے۔[1][2] .[3][4]

تعلیم

ترمیم

ابن جنی نے بچپن میں تعلیم کا آغاز موصل میں کیا اور وہاں کے شیوخ سے براہِ راست استفادہ کیا۔ ان کے استادوں میں احمد بن محمد موصلی شافعی (المعروف بالاخفش) کا ذکر ملتا ہے۔ ابن جنی اعراب کے ساتھ گھلتے ملتے اور ان کی خالص زبان سے سیکھتے تھے، لیکن زبان کی صحت جانچنے کے بعد ہی ان سے روایت کرتے۔ موصل کے فصیح اعراب میں محمد بن عساف عقیلی کو قابلِ اعتماد قرار دیتے تھے۔ ابن جنی نے ابو علی فارسی سے 337ھ میں موصل میں ملاقات کے بعد تقریباً 40 سال تک ان کی صحبت اختیار کی، جو 377ھ میں ابو علی کی وفات تک جاری رہی۔ انہوں نے ابو علی کے ساتھ شام، حلب، اور بغداد کے اسفار کیے، اور ان سے "کتاب سیبویہ"، "التصریف" لمازنی، اور دیگر اہم کتب پڑھیں۔ ابن جنی نے اپنی بیشتر تصانیف اسی صحبت کے دوران تحریر کیں اور مسائل پر تبادلہ خیال کے لیے خط و کتابت بھی کی۔ باوجود گہری عقیدت کے، وہ ابو علی کے نظریات سے اختلاف کرتے اور اپنی رائے دیتے تھے۔،[5] [6] ،[7][8]

[9][10]

تصانیف

ترمیم
آپ کی درج ذیل تصانیف ہیں:[11][12]
  • «الألفاظ المهموزة» (في الصرف، 1923م).
  • «التصريف الملوكي» (في الصرف، 1885م).
  • «تفسير أرجوزة أبي نواس» (في الأدب، 1966م).
  • «التّمام في تفسير أشعار هذيل» (في الأدب، 1962م).
  • «الخصائص» (في اللغة، 1952-1956).
  • «سر صناعة الإعراب» (في الصرف، 1954).
  • «عقود اللمع» (في النحو، 1978).
  • «عقود الهمز وخواص أمثلة الفعل» (في الصرف، 1923).
  • «علل التثنية» (في النحو، 1965).
  • «الفتح الوهبي على مشكلات المتنبي» (في الأدب، 1973م).
  • «الفَسر» (في الأدب، 1969-977م).
  • «اللمع في العربية» ().
  • «المُبهج في تفسير أسماء شعراء الحماسة» (في الأدب، 1348هـ).
  • «مختصر العروض» (في الأدب، 1972م).
  • «مختصر القوافي» (في الأدب، 1975).
  • «المذكر والمؤنَّث» (في اللغة، 1914).
  • «المحتسب في تبيين وجوه شواذ القراءات والإفصاح عنها» (في القراءات القرآنية، 1966-1969).
  • «المقتضب في اسم المفعول من الثلاثي المعتل العين» (في الصرف، 1904).
  • «المسائل الخاطريات» (في اللغة، 1988).
  • «المُنصف شرح التصريف للمازني» (في الصرف، 1904).
  • «التنبيه على شرح مشكلات الحماسة».
  • «تعليقات لغوية على كتاب إيضاح الشعر».
  • «شرح المعلقات».
  • «شرح مقصورة ابن دريد»
  • «مسألة في إعراب إذا».
  • «مسألة من كلام ابن جني».
  • «منتخبات شعرية».
  • «المسائل الخاطريات».
  • «أجوبة المسائل الدمشقية».
  • «أجوبة المسائل الواسطية».
  • «أسمماء الذهب والفضة».
  • «البُشرى والظَّفر».
  • «التذكرة الأصبهانيَّة».
  • «التبصرة».
  • «التعاقب في العربيَّة».
  • «تفسير العلويات».
  • «التلقين».
  • «الخطيب في شرح المذكَّر والمؤَنَّث».
  • «رسالة في شواذ القراءات».
  • «سرُّ السرور».
  • «شرح اصلاح المنطق».
  • «شرح الإيضاح».
  • «شرح الجمل».
  • «شرح فصيح ثعلب».
  • «شرح كتاب الألفاظ».
  • «شرح المقصور والممدود للفارسي».
  • «الكافي في شرح القوافي».
  • «كتاب الأراجيز».
  • «كتاب الفَرق».
  • «كتاب الفَرق بين الكلام الخالص والعام».
  • «كتاب اللُّصُوص».
  • «كتاب في الحقيقة والمجاز».
  • «كتاب القَدُّ».
  • «كتاب النَّقض على ابن وكيع».
  • «كتاب المنتصف».
  • «مجموع لابن جني».
  • «محاسن العربية».
  • «مختار تذكرة أبي علي وتهذيبها».
  • «مَدُّ الأصوات».
  • «مسائل نحويَّة».
  • «المعاني المُجَرَّدة».
  • «المعتلَّات في كلام العرب».
  • «المُعرِب في شرح قوافي أبي الحسن الأخفش».
  • «مُقدِّمَات أبواب التصريف».
  • «المقصور والممدود».
  • «المُهذَّب في النحو» ().
  • «النَّوادر المُمتعة في العربيَّة».
  • «الهِجاء».[13] ويقول الفيروزآبادي عن ابن جني: «ذو التصانيف المشهورة الجليلة، والاختراعات العجيبة»، ويثني ابن كثير على مؤلفاته: «صاحب التَّصانيف الفائقة المتداولة في النَّحو واللغة».[14]

وفات

ترمیم

ابن جنی کی وفات 27 صفر 392ھ 15 جنوری 1002 کو بغداد میں ہوئی، جہاں انہیں مقبرہ شونیزی میں اپنے استاد ابو علی فارسی کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ تاہم ابن الأثير نے وفات کا سال 393ھ بتایا، اور بعض روایات میں وفات کی جگہ موصل بھی ذکر کی گئی ہے۔ [15]

حوالہ جات

ترمیم
  1. محمد النجار، ص. 9-10
  2. فاضل السامرائي، ص. 40-41
  3. حسام النعيمي (الدراسات اللهجية)، ص. 13
  4. كارل بركلمان، ج. 2، ص. 244
  5. رحيم الخرزجي، ص. 8
  6. خديجة الحديثي (2001)، ص. 222
  7. حسام النعيمي (الدراسات اللهجية)، ص. 13-14
  8. فاضل السامرائي، ص. 127-128، 129
  9. فاضل السامرائي، ص. 128-131
  10. محمد خالد عيال، ص. 19
  11. غنيم الينبعاوي، ص. 17-71
  12. مروان عطيَّة-شيخ الراشد، ص. 23-29
  13. الخطيب البغدادي، ج. 11، ص. 310
  14. ابن كثير، ج. 11، ص. 379
  15. غنيم الينبعاوي، ص. 29 (هامش:4)