معتزلہ

مسلمانوں کا ایک گمراہ ترین فرقہ

معتزلہ ایک عقلیت پسند فرقہ جس کا بانی ایک ایرانی نژاد واصل بن عطا الغزال شاگرد خواجہ حسن بصری تھا، اس کے نزدیک قرآن مخلوق ہے، توحید عقلاً معلوم ہو سکتی ہے، گناہ کبیرہ کا مرتکب کافر ہے وغیرہ وغیرہ، مامون الرشید کے عہد میں یہ سرکاری مذہب بن گیا تھا۔ امت مسلمہ میں پانچ بڑے فرقے ہوئے ہیں ان میں سے ایک معتزلہ بھی ہے، سنی، خوارج، شیعہ، معتزلہ اور باطنیہ۔

معتزلہ
مذہب اسلام
بانی عمرو بن عبید و واصل بن عطا
مقام ابتدا بصرہ عراق
تاریخ ابتدا دوسری صدی ہجری کے وسط میں
ابتدا اہل سنت سے

وجہ تسمیہ

ترمیم

دوسری صدی ہجری کے اوائل میں یہ فرقہ وجود میں آیا اور اس کا سب سے پہلا پیروکار عمرو بن عبید تھا جو حسن بصری کا شاگرد تھا، ان لوگوں کو اہل السنۃ و الجماعۃ کے عقائد سے الگ ہوجانے کی بنا پر معتزلہ کہا جاتا ہے۔ معتزلہ کے مذہب کی بنیاد عقل پر ہے کہ ان لوگوں نے عقل کو نقل پر ترجیح دی ہے، عقل کے خلاف قطعیات میں تاویلات کرتے ہیں اور ظنیات کا انکار کردیتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے افعال کو بندوں کے افعال پر قیاس کرتے ہیں، بندوں کے افعال کے اچھے اور برے ہونے کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کے افعال پر اچھے اور برے کا حکم لگاتے ہیں، خلق اور کسب میں کوئی فرق نہیں کرپاتے،

پانچ اصول

ترمیم

ان کے مذہب کے پانچ اصول ہیں:

  • توحید
  • عدل
  • نفاذِ وعید
  • منزلۃ بین منزلتین۔
  • امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔
  • (1) عقیدۂ عدل کے اندر درحقیقت انکارِ عقیدۂ تقدیر مضمر ہے، ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ شر کا خالق نہیں، اگر اللہ تعالیٰ کو خالقِ شر مانیں تو شریر لوگوں کو عذاب دینا ظلم ہوگا جو خلافِ عدل ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ عادل ہے ظالم نہیں۔
  • (2) ان کی توحید کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات اور قرآن مجید مخلوق ہیں، اگر انھیں غیر مخلوق مانیں تو تعدد قدماء لازم آتا ہے جو توحید کے خلاف ہے۔
  • (3) نفاذِوعید کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو جو عذاب بتلائے ہیں اور جو جو وعیدیں سنائی ہیں، گنہگاروں پر ان کو جاری کرنا اللہ تعالیٰ پر واجب ہے، اللہ تعالیٰ کسی کو معاف نہیں کر سکتا اور نہ کسی گنہگار کی توبہ قبول کر سکتا ہے، اس پر لازم ہے کہ گنہگار کو سزا دے، جیسا کہ اس پر لازم ہے کہ نیکو کار کو اجر و ثواب دے، ورنہ نفاذِ وعید نہیں ہوگا۔
  • (4) منزلۃ بین منزلتین کا مطلب یہ ہے کہ معتزلہ ایمان اور کفر کے درمیان ایک تیسرا درجہ مانتے ہیں اور وہ مرتکبِ کبیرہ کا درجہ ہے، ان کے نزدیک مرتکبِ کبیرہ یعنی گنہگار شخص ایمان سے نکل جاتا ہے اور کفر میں داخل نہیں ہوتا، گویا نہ وہ مسلمان ہے اور نہ کافر۔
  • (5) امر بالمعروف کا مطلب ان کے نزدیک یہ ہے کہ جن احکامات کے ہم مکلّف ہیں دوسروں کو ان کا حکم کریں اور لازمی طور پر ان کی پابندی کروائیں اور نہی عند المنکر یہ ہے کہ اگر امام ظلم کرے تو اس کی بغاوت کرکے اس کے ساتھ قتال کیا جائے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم