ابوبکر بن عبدالرحمٰن
ابوبکر بن عبد الرحمان (وفات: 94ھ/713ء) فقیہ و محدث۔ نام محمد۔ کنیت ابوبکر۔ اکابر تابعین میں شمار ہوتے ہیں
ان کا پورا نام ابو بكر بن عبد الرحمن بن الحارث ابن ہشام المخزومی القرشی ہے ان کا لقب راہب قریش تھا
حضرت عمر کے عہد خلافت میں پیدا ہوئے۔ آپ کا شمار مدینہ کے ساتھ مشہور فقہا سبعہ میں ہوتا ہے۔ احادیث پر بڑا عبور تھا۔ بیشتر احادیث زبانی یاد تھیں۔ اسی بنا پر خلفاء آپ کی قدردانی کرتے تھے۔[1] اموی خلفاء بالخصوص عبدالملک بن مروان آپ کا بڑا مداح اور قدردان تھا۔ مدینہ میں فوت ہوئے۔[2]
ابوبکر بن عبد الرحمن | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
مدفن | جنت البقیع |
رکن | فقہائے سبعہ |
والد | عبد الرحمن بن حارث بن ہشام |
عملی زندگی | |
پیشہ | محدث |
درستی - ترمیم |
سات فقہائے مدینہ |
|
نام ونسب
ترمیممحمد نام، ابوبکر کنیت، ان کی کنیت نے اتنی شہرت حاصل کی کہ نام کی جگہ لے لی ؛چنانچہ بعضوں کے نزدیک ان کا نام ہی ابوبکر ہے، نسب نامہ یہ ہے، ابوبکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام بن مغیرہ بن عبد اللہ بن مخزوم مخزومی، ماں کا نام فاختہ تھا، نانہالی شجرہ یہ ہے، فاختہ بنت عتبہ بن سہیل بن عمرو بن عبد شمس بن عبدووبن نضر بن مالک بن جسل بن عامر بن لوئی۔
ولادت
ترمیمابوبکر حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں پیدا ہوئے۔
فضل وکمال
ترمیمابوبکر مدینۃ الرسول میں پیدا ہوئے تھے، جو علما کا مخزن تھا، ان میں تحصیل علم کا بڑا ذوق وشوق تھا، اس لیے بڑی محنت سے تحصیل علم کی اورمدینۃ کے نامور علما میں شمار ہوا، علامہ ابن سعد لکھتے ہیں، کان ثقۃ فقیھا کثیرا الحدیث عالما عاقلا عالیا سخیا ابن خراش انھیں ائمہ علما میں شمار کرتے تھے۔ [3]
حدیث
ترمیمحدیث کے وہ بڑے حافظ تھے، حافظ ذہبی لکھتے ہیں: کان ثقۃ حجۃ فقیھا اماما کثیر الروایۃ صحابہ میں اپنے والد عبد الرحمنؓ، ابوہریرہؓ، عمار بن یاسر، ابو مسعود بدریؓ، عبد الرحمن بن مطیع، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ اورام سلمہؓ سے روایتیں کی ہیں۔ ان سے روایت کرنے والے میں ان کے لڑکے عبد الملک عمرو، عبد اللہ اورسلمہ بھتیجے قاسم بن محمد اور عام لوگوں میں امام زہری، عمر بن عبد العزیز اورحکم بن عتبہ وغیرہ لائق ذکر ہیں۔ [4]
زہد عبادت
ترمیمزہد وتقویٰ کا رنگ نہایت گہرا تھا، مدینہ کے عابد ترین بزرگوں میں تھے زہد وعبادت اورنمازوں کی کثرت کی وجہ سے راہب قریش ان کا لقب ہو گیا تھا، حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ صالح عبادت گزار اورخدا پرست تھے [5]کئی کئی دن کا مسلسل روزہ رکھتے تھے، ان کے بھائی عمرو بن عبد الرحمن کا بیان ہے کہ وہ روزے پر روزے رکھتے تھے اور درمیان میں افطارنہ کرتے تھے۔ [6]
امانت
ترمیمامانت ان کا خاص وصف تھا، انھیں امانت میں اس قدر اہتمام تھا کہ اگر کوئی شخص ان کے پاس کوئی شے امانت رکھتا اوراس کا کچھ حصہ ضائع ہوجاتا تو خواہ امانت رکھنے والا معاف ہی کیوں نہ کردیتا مگر پوری امانت واپس کرتے، عثمان بن محمد کا بیان ہے کہ عروہ نے ابوبکر کے پاس کچھ مال امانت رکھوایا، وہ مال یا اس کا کچھ حصہ ضائع ہو گیا، عروہ نے کہلا بھیجا کہ تم پر اس کی ذمہ داری نہیں ہے، تمھاری حیثیت توامین کی تھی، انھوں نے جواب دیا کہ یہ مجھے معلوم ہے کہ مجھ پر تاوان نہیں ہے، لیکن میں یہ پسند نہیں کرتا کہ قریش میں تمھاری زبان سے یہ الفاظ نکلے کہ میری امانت ضائع ہو گئی غرض عروہ کے کہنے کے باوجود نہ مانے اوراپنی املاک بیچ کر پوری امانت واپس کی۔ [7]
فیاضی
ترمیمنہایت فیاض اورسیر چشم تھے۔ [8]
بنی امیہ میں منزلت
ترمیماموی خلفاء ان کی اتنی منزلت کرتے تھے کہ ان کی وجہ سے اہل مدینہ کو امویوں کی جانب سے امن حاصل ہو گیا تھا، عبد الملک خصوصیت کے ساتھ ان کی بڑی عزت کرتا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ بنی امیہ کے ساتھ اہل مدینہ کی روش کی بنا پر میں ان کے ساتھ برائی کا ارادہ کرتاہوں ؛لیکن ابوبکر بن عبد الرحمن کا خیال آجاتا ہے تو شرم آنے لگتی ہے اور ارادہ ترک کردیتا ہوں، عبد الملک اپنے بعد ہونے والے خلفاء ولید اورسلیمان کو بھی ابوبکر کی تعظیم وتکریم کی وصیت کرتا گیا تھا۔ [9]
وفات
ترمیمایک دن عصر کی نماز پڑھ کر غسل خانہ گئے، وہاں گرپڑے، فوراًزبان سے نکلا میں نے آج شروع دن میں خدا کی قسم کوئی نئی بات نہیں کی تھی، اسی دن غروبِ آفتاب سے پہلے انتقال کرگئے، یہ 94 کا واقعہ ہے۔ [10]