ابو القاسم احمد المستعلی باللہ
ابو القاسم احمد المستعلی باللہ دولت فاطمیہ کا نواں خلیفہ اور اسمعلیہوں کا انیسواں امام 487ھ تا 495ھ
مستنصر کی وفات کے بعد مستعلی کی وفات کے بعد اس کے اکیس سالہ لڑکے کو خلیفہ بنا دیا گیا، اس فیصلے کو مستنصر کے بڑے لڑکے نزار نے اس فیصلے کو نہیں مانا اور بھاگ کر اسکندریہ چلا گیا ۔
نزار کا اسکندریہ پر قبضہ
ترمیمنزار نے اسکندریہ کے والی کو ترغیب و لالچ کے ذریعے اپنے ساتھ ملا لیا اور اسکندریہ پر نزار کا قبضہ ہو گیا۔ نزار نے المصطفیٰ الدین اللہ کا لقب اختیار کر لیا۔ نزار کے مقابلے کے لیے افضل نے 488ھ میں ایک لشکر لے کر مصر کا محاصرہ کر لیا۔ فرقین میں معتدد معرکے ہوئے، ابتدا میں نزاریوں کو کامیابی ہوئی اور وہ قاہرہ کے قرب و جوار تک آ گئے۔ لیکن افضل نے ایک دوسرا لشکر تریتب دے کر دوبارہ جنگ کے لیے تیار ہو گیا اور اسکندریہ روانہ ہوا۔ اس دفعہ نزار کے اکثر ساتھی اس کا ساتھ چھوڑ گئے۔ نزار نے مقابلے تاب نہ لا کر ہتھیار ڈالدیئے اور امان طلب کی۔ افضل نے اسے امان دی اور گرفتار کرکے قاہرہ بھیج دیا۔ مستعلی نے نزار کو دو دیواروں کے درمیان کھڑا کر کے چن دیا۔ گو نزار ناکام رہا لیکن اسعیلیوں میں ایک فرقہ نزاریہ وجود میں آ گیا۔ جو ابتدا میں حشیشن کہلاتا تھا اور آج کل آغا خانی کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ "مصر کے اسمٰعیلی حلقوں نے اس واقعے کی طرف سے بے توجہی برتی۔ نزار کو ضرورت کے مطابق طرف دار نہ مل سکے۔ اور مستعلی نے اسے اس کے بیٹے سمیت قتل کروادیا۔ جب یہ خبر پھیلی تو شام میں اور سارے مشرق میں اس کے خلاف سخت ناراضی اور بے چینی پھیلی اور یہ لوگ اسمٰعیلی جمہور(جماعت سے) علیحدہ ہوگئے اور اپنا تعلق فقط نصّ اولین کے ساتھ قائم رکھا۔" (بحوالہ: اردو دائرۃ معارف اسلامیہ جلد۔2، صفحہ نمبر 756)
افضل کی حکومت
ترمیمنزار کی شکست کے بعد دولت فاطمیہ میں مستعلی کی کم سنی کی وجہ سے حکومت کی بگ ڈور افضل کے ہاتھ رہی۔ کم سن خلیفہ صرف نمائش کے لیے عوام میں لایا جاتا تھا۔ افضل نے ان شہروں کو جو فاطمی قبضہ سے نکل گئے تھے واپس لینے کی کوشش کی۔ بیت المقدس پر ترکی امیر سکمان قابض ہو گیا تھا۔ افضل کی کوشش سے 490ھ میں ممالک فاطمیہ میں داخل ہوا۔
صلیبی جنگیں
ترمیمجب افضل کو اس کی خبر ہوئی تو اس نے اس کا خیر مقدم کیا۔ اس کا خیال تھا کہ ان کی مدد سے بیت المقدس واپس لیا جا سکتا ہے۔ لیکن صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے وہاں جو خون ریزی کی اس سے افضل چونکا۔ اس کے بعد عقسلان کے قریب اس پر صلیبیوں کی جماعت نے اچانک اس پر حملہ کیا اور مصریوں کو شکست دی۔ افضل گھبرا کر مصر بھاگ گیا۔ دو سال کے بعد 495ھ میں صلیبیوں نے یافا کے قریب کامیابی ہوئی اور انھوں نے مصر پر حملہ کا ارادہ کر لیا ۔
وفات
ترمیم495ھ میں مستعلی کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت اس کی عمر اٹھائیس یا چھبیس سال تھی۔ کہا جاتا ہے کہ کسی نے اس کو زہر دے دیا یا کسی اور طریقہ سے خفیہ طور پر اسے مار ڈالا گیا۔ وہ اپنے باپ کی طرح محل میں رہتا تھا اور حکومتی معاملات میں حصہ نہیں لیتا تھا ۔[1]
مزید دیکھیے
ترمیمماہ و سال اور جانشینی
ترمیمابو القاسم احمد المستعلی باللہ پیدائش: 16 ستمبر 1094ء وفات:
| ||
شاہی القاب | ||
---|---|---|
ماقبل | فاطمی خلیفہ 10 جنوری 1094ء– 12 دسمبر 1101ء |
مابعد |
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ڈاکٹر زاہد علی۔ تاریخ فاطمین مصر