ابو ثعلبہ الخشنی
ابوثعلبہ خُشنی اصحابِ صفہ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔[1]
ابوثعلبہ کے نام اور ان کے والد کے نام کے سلسلے میں بہت اختلاف ہے۔ امام احمد بن حنبل، یحیٰ بن معین، ابن سعد اور ابن حبان کا کہنا ہے کہ ان کا نام ’’جُرہُم بن ناشم‘‘ ہے۔[2]
ابو ثعلبہ الخشنی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ وفات | سنہ 694ء |
عملی زندگی | |
پیشہ | محدث |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | بیعت الرضوان ، غزوہ حنین ، غزوہ خیبر |
درستی - ترمیم |
قبول اسلام
ترمیمابن سعد کی روایت ہے جس وقت رسول کریم غزوۂ خیبر کی تیاری فرما رہے تھے ، یہ خدمتِ نبوی میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہوئے اور رسول اللہ کے ساتھ غزوۂ خیبر میں شریک رہے۔ پھر سات افراد پر مشتمل وفد خُشین رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ سارے لوگ ابوثعلبۃ ہی کے پاس قیام کیے۔[3] ابنِ کلبی کی روایت ہے کہ ابو ثعلبہ بیعتِ رضوان میں شریک رہے اور پیغمبر اسلام نے غزوۂ خیبر کے موقع سے انھیں مالِ غنیمت میں شریک فرمایا اور ابوثعلبہ کو انھی کی قوم’’خشین‘‘ کے پاس داعئ اسلام اور مبلغِ اسلام بنا کر بھیجا، جس کے نتیجہ میں پوری قوم شرفِ اسلام سے بہرہ ور ہو گئی۔ ابوثعلبہ بہت زیادہ عبادت گزار تھے، ان کا معمول تھا کہ ہر رات گھر سے باہر نکلتے اور کافی دیر تک اللہ تعالیٰ کی خلقت: آسمان، تارے وغیرہ میں غور و فکر کرتے، پھر واپس لوٹ کر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گر جاتے۔ ان کا انتقال بھی سجدہ ہی کی حالت میں ہوا۔[4]
غزوات
ترمیمغزوات کی شرکت کے متعلق کوئی تصریح نہیں ملتی، خیبر کے مالِ غنیمت میں سے آنحضرتﷺ نے ایک حصہ مرحمت فرمایا تھا ، اس سے قیاس ہوتا ہے کہ شاید اس غزوہ میں شریک ہوئے ہوں گے۔
اشاعت اسلام
ترمیمالبتہ دوسری خدماتِ جلیلہ پر مامور ہوتے رہتے تھے؛چنانچہ آنحضرتﷺ نے انھیں ان کے قبیلہ میں مبلغ بناکر بھیجا تھا اوران کی کوششوں سے ان کا قبیلہ آنحضرتﷺ کی حیات ہی میں مشرف باسلام ہو گیا۔ [5]
نبی اکرم سے ملکِ شام میں زمین کا مطالبہ
ترمیمابوثعلبہ کا بیان ہے کہ میں نبی اکرم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول : آپ ملکِ شام میں میرے نام اتنی زمین الاٹ کردیجیے ۔ رسول اللہ نے اس وقت الاٹ نہیں کیا اور صحابۂ کرام کی جانب متوجہ ہوکر فرمایا: کیاتم لوگ اس کی بات نہیں سن رہے ہو؟ میں نے عرض کیا: اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے میں ضرور اس زمین کو حاصل کرکے رہوں گا۔ تونبی اقدس نے اس مطلوبہ زمین کو میرے نام الاٹ کر دیا۔[6]انھوں نے شام میں سکونت اختیار کرلی اور وہیں ان کی ذریت نے نشو و نما پائی ۔
وفات
ترمیمابوثعلبہ اپنی وفات سے پہلے اپنے شاگرد وں اور متوسلین سے کہا کرتے تھے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی ذات سے یہ امید ہے کہ میری موت تم لوگوں کی طرح نہیں ہوگی بلکہ عام لوگوں کی موت سے الگ تھلگ میری موت ہوگی اور ایسا ہی ہوا۔تہجدکی نماز پڑھ رہے تھے ، سجدہ کی حالت میں روح قبض ہو گئی۔امیر معاویہ کے دور میں وفات پائی۔ لیکن کہا گیا ہے کہ 75ھ شام میں وفات پائی[7]
فضل وکمال
ترمیمفضل وکمال کے اعتبار سے کوئی امتیازی پایہ نہ تھا،تاہم ان سے چالیس حدیثیں مروی ہیں، انمیں سے تین متفق علیہ ہیں اورایک میں امام مسلم منفرد ہیں،جبیر بن نفیر، ابن مسیب اورمکحول نے ان سے روایتیں کی ہیں۔ [8]
فضائل اخلاق
ترمیمیوں تو ابو ثعلبہ کی ذات تمام فضائل صحابیت کی جامع تھی،لیکن حق گوئی اور راست گفتاری ان کا خاص وصف تھا، سچ بات کے علاوہ کبھی جھوٹ سے زبان آلودہ نہ ہوئی،ان کے معاصرین کہتے ہیں کہ ہم نے ابی ثعلبہ سے زیادہ سچی بات کہنے والا نہیں دیکھا،کائنات عالم پر نظر ڈال کر قدرتِ خداوندی پر غور و فکر کیا کرتے تھے،رات کے سناٹے اورتاریکی میں باہر نکل کے آسمان پر نظر ڈالتے ،اور قدرتِ خدا وندی پر غور کرتے کرتے سجدہ میں گرجاتے۔ [9]