اجل سنگھ
اجل سنگھ، سردار بہادر (1895–1983) بیسویں صدی کی ایک نامور سکھ شخصیت جس نے سکھ سماج اورپنجاب کی ترقی کے لیے کئی قابل تعریف اقدام کیے۔ آپ کا خاندانی پس منظر بھائی سنگت سنگھ کے ساتھ جا ملتا ہے۔جس نے سن 1705 میں چمکور صاحب کی لڑائی کے وقت جان قربان کی تھی۔ آپ نے دسمبر 1895 کو سجان سنگھ کے گھر بی بی لکشمی دیوی کی کوکھ سے پنڈ ہڈالی ، ضلع شاہ پور سرگودھا (مغربی پنجاب) میں جنم لیا۔ابتدائی تعلیم گاؤں کی دھرم شالہ اور مدرسے سے حاصل کرکے پھر امرتسرکے خالصہ کالجیئیٹ اسکول میں داخلہ لیا۔ابتدائی تعلیم گاؤں کی دھرم شالہ اور مدرسے سے حاصل کرکے پھر امرتسرکے خالصہ کالجیئیٹ اسکول میں داخلہ لیا۔ اور اس کے بعد گورنمنٹ کالج لاہورمیں داخل ہو کے سن 1916 عیسوی کوایم۔اے۔ (تاریخ) کی ڈگری حاصل کی۔ پڑھائی میں دلچسپی لینے کے علاوہ آپ کھیلوں میں بھی بڑح چڑھ کے حصپ لیتے تھے۔کالج کی ہاکی کی ٹیم کے ارکان بھی رہے۔ آپ کی شادی بھائی ویر سنگھ کی نواسی اور س۔ سندر سنگھ دھوپیا کی بیٹی بیبی سنتسیو کور کے ساتھ ہوئی تھی۔
لاہورمیں پڑھائی ختم کرنے کے بعد آپ اپنے گاؤں واپس چلے گئے اور اپنی زمینوں اور باغوں کی ترقی میں دلچسپی لینے لگے۔سن 1918 عیسوی کے قریب آپ کے والد اور بڑے بھائی س۔ سوبھا سنگھ دلی چلے گئے اور وہاں بننے والی نئی دلی کے تعمیراتی ٹھیکوں کا کام کرنے لگے ۔ س۔ اجل سنگھ نے پیچھے گاؤں میں رہ کر کھیتی باڑی اور دیگر امور کی ذمہ داری سنبھال لی۔ضلع ملتان کی شور زدہ زمین کو کھیوتوں میں بدل دیا۔ ۔ آپ نے سن 1924 عیسوی سے ہی مشینوں کی مدد سے کھیتی باڑی کرکے بڑے انقلابی قدم اٹھائے۔ آپ انڈین سینٹرل کاٹن کمیٹی کے تین بار میمبر رہے اور سن 1945 عیسویمیں یو۔این۔او۔ کی جانب سے منعقدہ کینیڈا میں ہوئی ‘کانفرنس آن فوڈ اینڈ ایگریکلچر’ میں ہند سرکار کے نمائندہ کی حیثیت سے شامل ہوئے۔
آپ نے اپنی پڑھائی ختم کرنے کے بعد سکھوں کے سماجی ، مذہبی، تہذیبی اور تعلیمی معاملات میں دلچسپی لینی شروع کر دی۔ سن 1919 عیسوی میں آپ چیف خالصہ دیوان ، امرتسر کے ساتھے جڑ گئے اور ایک طویل عرصے تک اس کی کارج-سادھک کمیٹی کے ارکان بنے رہے۔ لگ بھگ 30 سال آپ خالصہ کالج، امرتسر کی مینیجنگ کمیٹی کے ارکان رہے اورگورننگ کونسل کے پانچ سال سربراہ بھی رہے۔ گرو گوبند سنگھ فاؤنڈیشن ، چندی گڑھ اور گرو نانک فاؤنڈیشن ، نئی دلی کے قیام میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا۔ اسی طرح پنجابی یونیورسٹی ، پٹیالہ اور گرو نانک دیو یونیورسٹی امرتسر کو قائم کرنے میں بھی بھرپور دلچسپی لی۔ سن 1972 عیسوی میں نئی دلی میں بھائی ویر سنگھ سدن کے قیام کے پیچھے بھی آپ کی سوجھ کام کر رہی تھی۔ اسی طرح اور بھی کئی تعلیمی اداروں سے متعلق رہے۔ سکھ ایجوکیشنل کانفرنس دی کی بھی دو بار سربراہی کی۔ آپ کی کوششوں سے سن 1969 عیسوی میں مدراس میں گرو نانک خالصہ کالج کا قیام ممکن ہوا۔
سن 1926 میں سکھ شہری حلقے سے آپ بلا مقابلہ پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے میمبر چنے گئے، مگر گرودوارہ سدھار لہر کے دوران قید کیے گئے اکالیوںکو چھوڑنے کی وجہ سے آپ نے استعفی دے دیا۔ آپ پھر بلا مقابلہ ممبر چنے گئے اور 1956 تک لگاتار رہے۔ سن 1937سے 1942 عیسوی تک آپ یونیئنسٹ کابینہ میں پارلیمانی سیکٹری (داخلہ) بھی رہے اور تقسیم ہند کے بعد دو بار وزیر بھی بنے۔ سن 1930 عیسوی میں ہوئی پہلی اور سن 1931 میں ہوئی دوسری گول میز کانفرنسوں میں سکھوں کے نمائندہ کی حیثیت سے شامل ہوئے۔ سن 1932 عیسوی پنجاب سکھ پولیٹیکل کانفرنس، سن 1933 عیسوی میں سکھ یوتھس کانفرنس اور سن 1942 عیسوی میں آل انڈیا سکھ یوتھ لیگ کانفرنس کی سربراہی کرتے ہوئے سکھوں کی اہمیت اور حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ سن 1942 عیسوی میں اس ڈیپوٹیشن میں شامل ہوئے جو سکھوں کے حقوق کی تحفظ کے لیے سر سٹیپھرڈ کرپس سے ،لاقات کے لیے نئی دلی بھیجا گیا۔ سن 1947 عیسوی کے فسادات کے وقت مغربی پنجاب سے ہندووں اور سکھوں کے پر امن انخلاء کے لیے سرگرم اور قابل تعریف کردار ادا کیا۔ شومنی گرودوارہ پربندھک کمیٹی کے ساتھ بھی شروع سے جڑے رہے۔ کانگرسی ناہوتے ہوئے بھی اس پارٹی کی طرف سے چلائی گئی مہموں کی حمایت کی۔
سن 1935 عیسوی کو انگریز سرکار کی جانب سے آپ کو ‘سردار بہادر’ کا خطاب دیا گیا، جس کو دیس کی آزادی کی خاطر لڑنے والوں کی توہین سمجھتے ہوئے چھوڑ دیا۔ستمبر، 1965 عیسوی کو آپ کو پنجاب کا گورنر بنایا گیا اور پھر 28 جون 1966سے 25 مئی 1971 تک آپ مدراس میں گورنر کے عہدے پر رہے۔
سن 1947 عیسوی میں آپ نے ہزاروں ایکڑ زرخیز زمین، فیکٹریوں اور شہری جائدادوں ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ کے نئی دلی میں رہائش اختیار کی اور 12 کرزن روڈ کو اپنا مستقل ٹھکانا بنایا۔ اور وہیں 15 فروری 1983 کوانتقال کیا۔ سکھ قوم اور پنجاب کی آواز کو بہترین ڈھنگ سے پیش کرن والے آپ ایک بے غرض لیڈر تھے۔[1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ڈاکٹر۔ رتن سنگھ جگی، سروت : سکھ پنتھ وشوکوش، گر رتن پبلیشرز، پٹیالہ