احمد شمیم
احمد شمیم(31 مارچ 1927 تا 7 اگست 1982) کو سری نگر میں پیدا ہوئے۔اُن کے والد کا نام اسد اللہ زرگر اور والدہ کا نام زینب زرگر تھا اپنی ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی اسکول سری نگر میں ہی حاصل کی۔[1]پرتاب کالج سری نگر سے ایف۔ایس کی اور قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔راولپنڈی میں قیام کیا اور گورڈن کالج راولپنڈی سے ایم۔اے کیا۔ریڈیو پاکستان سے بھی منسلک رہے اور پھر 1956،میں محکمہ اطلاعات میں انفرمیشن آفیسر کے عہدے پر فائز ہو گئے۔بعد میں اس محکمے کے ڈائریکٹر بھی بنے۔احمد شمیم کا شمار چند ان ادبی شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے بیک وقت دو یا دو سے زائد زبانوں میں شاعری کی۔[2][3] احمد شمیم کا شہرہ آفاق کلام کبھی ہم خوبصورت تھے ۔کتابوں میں بسی خوشبو کی صورت[4]‘‘ بلبلِ پاکستان اور کوئل پاکستان کہلانے والی فنکارہ اور گلوکارہ نیرہ نور نے گا کر امر کر دیا۔ احمد شمیم کا یہ کلام پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں استعمال کیا گیا ہے۔
احمد شمیم | |
---|---|
پیدائش | 31 مارچ 1927 سری نگر |
وفات | 7 اگست 1982 راولپنڈی |
وجۂ وفات | عارضہ قلب |
قومیت | پاکستانی |
شہریت | برطانوی ہند، پاکستان |
پیشہ | صحافی، انفارمیشن آفیسر محکمہ اطلاعات و نشریات پنجاب |
تنظیم | محکمہ اطلاعات و نشریات پنجاب |
آبائی شہر | سری نگر، مقبوضہ کشمیر |
مذہب | اسلام |
شریک حیات | منیرہ احمد شمیم |
ادب سے لگاؤ
ترمیمادب سے لگاؤ اور لکھنے کا شوق طالبِ علمی کے زمانے سے ہی تھا۔اپنے اندر پلنے والے جذبات کو احسن انداز میں تحریروں کی شکل دی۔احمد شمیم کا نام جدید اُردو نظم کے حوالے سے جانا پہچانا جاتا ہے۔احمد شمیم نے جس صنفِ سخن کو برتا خوب برتا۔ہر جگہ ان کا خوبصورت شائستہ اسلوب نمایا ہے۔بقول سجاد حیدر ملک’’ شمیم نے اتنا پڑھ رکھا تھا کہ کئی کتابیں ان کے اندر جذب تھیں یونانی، دیو مالائی داستانیں، یورپی ادب، لوک ادب، پاکستانی کشمیری اور مشرقی وسطیٰ کے مقالات و جدوجہد یہ سب کچھ ان کے شعور میں رچا ہوا تھا‘‘۔
دو سے زائد زبانوں میں شاعری
ترمیماحمد شمیم کا شمار چند ان ادبی شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے بیک وقت دو یا دو سے زائد زبانوں میں شاعری کی۔احمد شمیم کی وجہ مقبولیت اُن کی نظم گوئی بنی۔زندگی کے نشیب و فراز میں جو حالات درپیش آئے اُن کو اپنی نظموں میں قلم بند کیا۔
کشمیر کی آزادی کے لیے جدو جہد گرفتاریاں
ترمیماحمد شمیم اپنی والدہ بے حد محبت کرتے تھے لیکن اپنی والدہ سے جدا ہونے کے بعد پھرکبھی اُن سے نہ مل سکے۔احمد شمیم اپنی نظم ’’جیون کا دُکھ دیکھ لیا‘‘ میں کہتے ہیں کہ والدہ کے میکے کے سبھی افراد مکان گرنے سے ہلاک ہو چکے تھے اور کشمیر کی آزادی کے لئے شمیم کی سیاسی سرگرمیاں آئے دن سری نگر میں اُن کی گرفتاری کا سبب بنی رہتیں۔ جس کی وجہ سے احمد شمیم کی والدہ چپ چاپ اور سہمی ہوئی رہتی۔
ہجرت
ترمیم۱۹۴۸،میں مسلسل پولیس تشدت اور پے در پے جیل بھیجے جانے سے مجبور ہو کر سری نگر میں اپنی والدہ اور دیگر گھر والوں کو خیر آباد کہا اور اکیس سال کی جواں عمر میں ہجرت کر کے پاکستان میں کشمیر کی آزادی کےلئے میڈیا کے ذریعے جدوجہد کرنے چلے آئے۔وہ اپنی والدہ کو پھر کبھی نہ مل پائے اور والدہ پندرہ طویل برس بیٹے کی جدائی سہنے کے بعد انتقال کر گئیں۔ والدہ کی وفات نے احمد شمیم کو بہت متاثر کیا۔اپنی والدہ کی یاد میں ’’ریت پر سفر کا لمحہ‘‘ جیسی خوبصورت نظم کہی۔جو ان کی مقبولیت کی وجہ بنی۔
راولپنڈی میں قیام اور عشق
ترمیماحمد شمیم گورڈن کالج راولپنڈی کے عقب میں واقع قیصر ہوٹل کے ایک کمرے میں کئی سالوں سے مقیم تھے اور جس لڑکی کے عشق میں مبتلا تھے اُس سے جدائی میں ہوٹل کا وہ کمرہ اُنہیں قید خانہ لگتا تھا جس کو وہ خانۂ زنجیر کہتے تھے۔احمد شمیم اُس دور کے لکھے اپنے محبت کے خطوط (ہوا نامہ بر ہے: خطوط) میں کہتےہیں کہ کمرے میں اُس لڑکی کا خیال ستاتا رہتا تھا اور باہر سڑکوں پر جانے سے پہ تمام لوگ اجنبی لگتے تھے اور پھر احمد شمیم ۱۹۵۰ء میں جامعہ مسجد روڈ راولپنڈی میں رہنے والی بوڑھی اور نیک خاتون ماں جی کے گھر کرائے پر رہنے لگے۔
منیرہ احمد سے شادی
ترمیمماں جی مسجد میں لڑکیوں کو قرآن پڑھایا کرتی تھیں۔احمد شمیم کو مان جی کی ایک طلبہ منیرہ بھا گئیں اور شمیم نے ۱۹۵۶ء میں منیرہ سے شادی کر لی۔احمد شمیم کی والدہ کے بعد منیرہ جی اُن کی زندگی کاسب سے اہم حصہ تھیں۔منیرہ احمد شمیم’’ہوا نامہ بر ہے‘‘ (احمد شمیم کے مجموعہ خطوط)کے پیش لفظ’’یادوں کے زخم‘‘میں لکھتی ہیں
’’اپنے دامن میں گئے دنوں کی خوشبو لئے۔۔۔۔۔۔۔ہماری ملاقات کا وہ پہلا لمحہ میری زندگی کے اندھیروں میں روشن ستارے کی طرح آج بھی چمک رہا ہے‘‘۔مال روڈ پر لوگوں کا ہجوم تھا۔میں اور احمد شمیم ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے اپنی نئی دنیا تخلیق کر رہے تھے اچانک خاموشی کی لہر توڑتی ہوئی ایک آواز میری روح تک اُتر گئی۔ وہ کہہ رہے تھے
منوّ!یوں لگتا ہےتم میرے اندر سے نکل آئی ہو۔ ہر آدمی لا شعوری طور پر اپنا ایک خواب متعین کرتا ہے۔ میرا بھی ایک خواب تھا کہ مجھے ایک ایسی لڑکی مل جائے جو اندر سے دُکھ اُٹھانے کی بہت استعداد رکھتی ہو۔ میں نے تمہیں دیکھا عقل نے کچھ نہیں کہا۔ لیکن عقل سے پرے جو حس ہوتی ہے اُس نے تمہیں فوراً اندر لے لیا۔ منوّ!۔۔۔۔میں تمہیں اپنی محبوبہ کی طرح تمہیں دل سے چاہتا ہوں اور اپنی ماں کی طرح تمہارا احترام کرتا ہوں۔ خدا جانے میں تمہارے اندر محبوبہ یا بیوی سے زیادہ ماں کیوں تلاش کرتا ہوں۔ کیا یہ اس وجہ سے ہے کہ میں نے تمہارے اندر اپنی ماں کا پرتو دیکھ لیا یا اس لئے کہ میری ماں کی طرح تم بھی میرے دُکھ میں جلتی ہو۔۔؟
کیا اس لئے کہ تم بھی راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر میری سلامتی کے لئے دعائیں مانگتی رہتی ہو۔
احمد شمیم اپنی زندگی میں خدمت و ایثار کے پیکر، دیندار، متشّرع اور روشن خیال انسان تھے۔ ان کا احساس کسی کو دکھ درد میں مبتلا دیکھ کر تڑپ اُٹھتا۔ ان کی نظم گوئی میں فکر انگیزی اور رفعتِ تخیل کے ساتھ ساتھ بامحاورہ زبان کا بے ساختہ اظہار بھی ملتا ہے۔ احمد شمیم کی نظم “کبھی ہم خوبصورت تھے” ٹی وی ڈرامہ “تیسرا کنارہ” میں پاکستانی گلوکارا نیرہ نور کی خوبصورت آواز میں گائی جانے والی یہ نظم ان کی شاعری میں عظمت کی دلیل اور ان کی پہچان بنی
۔
نمونہ کلام
ترمیمکبھی ہم خوبصورت تھے
کتابوں میں بسی خوشبو کی صورت
سانس ساکن تھی!
بہت سے اَن کہے لفظوں سے تصویریں بناتے تھے
پرندوں کے پروں پر نظم لکھ کر
دُور کی جھیلوں میں بسنے والے لوگوں کو سناتے تھے
جو ہم سے دُور تھے لیکن ہمارے پاس رہتے تھے
نئے دن کی مسافت
جب کِرن کے ساتھ آنگن میں اترتی تھی
تو ہم کہتے تھے… امی!
تتلیوں کے پَر بہت ہی خوبصورت ہیں
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
کہ ہم کو تتلیوں کے’ جگنوؤں کے دیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جگنو، روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں
نئے دن کی مسافت رنگ میں ڈوبی ہوا کے ساتھ
کھڑکی سے بلاتی ہے
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
کہ ہم کو تتلیوں کے’ جگنوؤں کے دیس جانا ہے!
حوالہ جات
ترمیم- ↑ منیرہ احمد شمیم (1982)۔ احمد شمیم شخصیت اور فن۔ اسلام آباد: اکادمی آف ادبیات پاکستان۔ صفحہ: 212
- ↑ منیرہ احمد احمد شمیم (1982)۔ احمد شمیم شخصیت اور فن۔ اسلام آباد: اکادمی ادبیات پاکساتن۔ صفحہ: 212
- ↑ منیرہ احمد شمیم (1987)۔ ہوا نامہ بر ہے۔ لاہور: توصیف پبلی کیشنز۔ صفحہ: 7
- ↑ "احمد شمیم کی نظمیں"