احمد علوی کی ولادت 20 جنوری 1956ء کو ریاست اترپردیش کے ضلع بلند شہر کے قصبہ گلاؤٹھی جو ناطق گلاٹھوی کا قصبہ ہے میں پیدا ہوئے۔[2]آپ کے والد محمود علی پولس کانسٹیبل تھے،آزادی کے بعد انھوں نے پولس کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا،اور کچھ دن گلاؤٹھی میں اپنی زمین پر کاشتکاری کی پھر 1962ء میں میرٹھ منتقل ہو گئے احمدعلوی علوی کی ابتدائی تعلیم و تربیت میرٹھ میں ہی ہوئی۔

محمد احمد علوی
پیدائش15 ستمبر1956ء[1]
گلاؤٹھی بلندشہر، یوپی، انڈیا
وجہِ شہرتشاعری
مذہباسلام

تصانیف

ترمیم
  • صفر (شعری مجموعہ غزلیات) اشاعت 1992ء
  • طمانچے (مجموعہ طنزو ظرافت) اشاعت 2009ء
  • پین ڈرائیو (مجموعہ طنز و ظرافت) اشاعت 2012ء
  • ہنسے تو پھنسے (مجموعہ طنزو ظرافت) اشاعت 2014ء

فلموں کے لیے نغمہ نگاری

ترمیم

ڈاکو ملکھان سنگھ ، دی ٹانگ آئیز، بنگال کی انار کلی۔ کالی رات اماوس کی

اعزازات

ترمیم

اردو اکادمی دہلی ایوارڈ برائے طنزو ظرافت، میڈیا ایسو سی ایشن ایوارڈ برائے بہترین طنزو مزاح، دلاور فگار ایوارڈ کلچرل سوسائٹی دلی کارواں اردو قطر ایوارڈ برائے طنزو مزاح اردو کے مقبول ترین ماہنامہ شاعر نے اپنا نومبر 2015ء کا طنزو مزاح کا خصوصی شمارہ احمد علوی کی ظرافت کے نام کیا تھا۔جس میں احمد علوی کی ظرافت پر مشاہیر کے مقالات شامل اشاعت کیے تھے جس میں بشیر بدر، عظیم اختر، مولا بخش، طالب زیدی، فدا المصطفوی فدوی ، فاروق ارگلی و امتیاز وحید کے نام خصوصی طور پر لیے جا سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ یوسف. ناظم، مجتبٰی حسین، حقانی القاسمی، منظور عثمانی، حافظ کر اٹکی، عارف اقبال، سید اخترالسلام، نصرت ظہیر اور پاپولر میرٹھی کے مختصر تاثرات کو اپنے جریدے میں جگہ دیکر احمد علوی کی ظرافت کو وقار بخشا تھا۔

مشاہیر ادب کی نگاہ میں

ترمیم

آج کل مزاح گوئی پر صحافیانہ رنگ چھایا ہوا ہے جب تک کسی بڑے آدمی یا پھر کسی بڑے واقعے کا ذکر مزاحیہ قطعے یا شعر میں نہ ہو سامعین میں ہلچل یا تہلکہ نمودار نہیں ہوتا۔ لیکن یہ بدعت نہیں ضرورت ہے اور احمد علوی نے اس ضرورت کی تکمیل میں دل کھول کر حصہ لیا ہے۔ شوخی بھرے مزے مزے کے شعر کہنے میں ان کا دل لگتا ہے اور واہ واہ سننے کے لیے ہمہ تن گوش رہتے ہیں خوش رہنا اور خوشی کے چند لمحے لوگوں میں بانٹنا میرے حساب سے کار خیر ہی نہیں کارِ ثواب بھی ہے۔ ان کی شاعری طمانچوں کی نہیں دبی دبی آنچوں کی شاعری ہے ہنسی ہنسی میں علوی بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔ ان کی مصروفیات بہت ہیں لیکن وہ جانتے ہیں ان میں سب سے اچھی مصروفیت مزاح گوئی ہے علوی کی نظم ’’شیطان کا شکوہ‘‘ پڑھیے اور از راہِ کرم بتائیے کہ یہ کس کا شکوہ ہے اور ہاں مزاح گوئی میں ترقی کی گنجائش زیادہ ہے۔[3]

  • فاروق ارگلی

احمد علوی کو ظرافت تو جیسے اللہ میاں نے خاص طور پر عطا کی ہے کیونکہ وہ کسی بھی بات میں مضحک سچویشن پیدا کر لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن صرف ہنسنا یا ہنسانا ہی احمد علوی کا ظرافتی مطمح نظر نہیں، ان کی شاعری گد گداداتی ہی نہیں انسانی زندگی کے تلخ حقائق اور نا گزیر مسائل کو لے کر دلوں کو جھنجھوڑتی بھی ہے۔ مزاحیہ شاعر کا بنیادی کام ہنسنا ہنسانا لیکن احمد علوی مزاح سے زیادہ طنز کے شاعر ہیں۔ سماج کا کوئی ایسا کردار ان کے شدید ترین طنز کے وار سے بچ نہیں سکتا جس کی چال سیدھی نہ ہو یا جس کا طرز عمل منفی ہو۔ برجستگی اور بے باکی احمد علوی کی خصوصیت ہے،وہ ایک ماہر نشانے باز کی طرح اپنے شکار پر جھپٹنے کی ہمت رکھتے ہیں،خواہ وہ کتنی ہی بڑی سیاسی شخصیت کیوں نہ ہو پولس ہو،عدلیہ ہو، اگر کچھ غلط نظر آتا ہے تو ضمیر کی تمام تر صداقتوں کے ساتھ ردّ عمل کا اظہار فرضِ منصبی کی طرح ادا کرنے سے قید و بند ہی کیا جان تک کا خطرہ انھیں باز نہیں رکھ سکتا۔ گجرات کے مسلم دشمن وزیر اعلیٰ نریندر مودی پر براہِ راست شاعرانہ حملہ دیکھیے۔[4]

غزلوں کا مجموعہ ’’ صفر ‘‘ اور پھر ظریفانہ شاعری کا مجموعہ’’ طمانچے ‘‘ کے بعد اب احمد علوی ایک اور قہقہہ بم دھماکا بہ عنوان ’’ بیوی وہی پیاری ‘‘ ( یہ مجموعہ پین ڈرائیو کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے ) سے کرنے والے ہیں۔ سارے علم کے شوہروں کو اب اپنی اپنی ایک یا ایک سے زائد بیویوں کی خیر منانی پڑے گی کہ احمد علوی سے کچھ بعید نہیں کہ وہ کب سنجیدہ ہو جائیں اور کب قہقہہ بن جائیں۔ احمد علوی مزاحیہ ڈرامے بھی لکھتے ہیں اور سنجیدہ سیریل بھی۔ ٹماٹر کے چھینٹے نامی ڈرامے کے سترّ اور اسّی کے دہے میں تقریباً ایک سو شوز ہندوستان اور بیرون ملک میں ہو چکے ہیں اور موصوف ممبئی کے چکروں میں بھی آنے والے ہیں۔ اب تک فیچر فلم ’’ بنگال کی انار کلی ‘‘ ( کہانی مکالمے اور نغمے ) فیچر فلم ’’ کالی رات اماوس کی ‘‘ (نغمے) ٹی وی سیریل ’’جاسوس عمران‘‘ (اسکرین پلے مکالمے ) تو اے شاعر کے عالمی اردو قارئین۔ آ ج کے اس دہشت گردانہ عالمی منظر نامے میں آدمی کے چہرے سے تبسم، مسکراہٹ اور ہنسی غائب کر دینے والے عالمی سیاست دانوں کے خلاف آپ بھی سراپہ احتجاج بن جائیے۔[5]

روابط

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم