اختیار
اختیار (انگریزی: Choice) فیصلہ سازی پر مبنی ہے۔ اس میں کئی متبادل باتوں میں سے کسی ایک یا چند کو چُننا شامل ہو سکتا ہے۔ کوئی شخص کسی مفروضہ اختیارات میں سے چُن سکتا ہے یا وہ حقیقی اختیارات سے کچھ چن سکتا ہے جس کے بعد وہ عملی انداز میں اس کو اپنا سکتا ہے یا کسی بات کو بہ روئے کار لا سکتا ہے۔ مثال کے طور ایک گاڑی بان کو کار چلا رہا ہو، دو قسم کے اختیارات رکھ سکتا ہے۔ اس کے پاس ایک اختیار اس بات کا ہے وہ قریب ترین راستے سے منزل کی جانب روانہ ہو مگر وہ راستہ ٹریفک جام والا ہو۔ دوسرا اختیار ایسا راستہ اختیار کرنا ہو سکتا ہے جو اگر چیکہ لمبا ہو، مگر ایسا راستہ ہو جہاں کہ سڑک عام طور سے کھلی رہتی ہے اور وہ کم وقت میں پہنچ سکتا ہو۔ دونوں راستوں کے چننے کے اپنے فائدے ہو سکتے ہیں اور فائدوں کے ساتھ ساتھ ان سے متصلہ نقصانات بھی منسلک ہو سکتے ہیں۔
شخصی اختیارات اور جمہوری اختیارات
ترمیمشخصی اختیارات سے مراد وہ اختیارات ہیں جو کسی شخص کی آزادیٔ فکر، حرکت اور نقل سے متعلق ہے۔ اس میں کسی شخص کا کسی علم کو حاصل کرنا، قانون کے دائرے میں کسی بھی عمل کو انجام دینا، کوئی بھی پیشہ اختیار کرنا، کسی بھی قسم کی انجمن بنانا، دوستی اور رشتے داری میں اسی طرح کے معاملوں میں اپنی پسند سے کام لینا شامل ہیں۔
تاہم جہاں عالمی سطح پر وسیع تر شخصی اختیارات کی مدافعت کی گئی ہے، وہیں سیاسی اور ملکی فیصلہ سازی میں اختیاریت کی یگ گونہ مرکوزیت یا ایک ہی شخص کی دانست اور اس کی فیصلہ سازی پر زور کی مخالفت کی گئی ہے۔ اسی وجہ دنیا میں اکثر ممالک میں مرکزیانے (Centralization) کی بجائے غیر مرکزیانے پر اور نظام حکومت کو عوام سے قریب تر کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
اختیارات کی حوالگی
ترمیمپاکستان کی تاریخ میں پہلی بار راجہ پرویز اشرف کی حکومت نے قائد حزب اختلاف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا صدر نشین مقرر کر کے اپنے آپ کو احتساب کے لیے ان کے حوالے کیا۔ انتخابی عمل کو شفاف ، غیر جانبدار اور منصفانہ بنانے کے لیے ایسی جامع اصلاحات کیں جن کے تحت صدر الیکشن کمیشن کی تعیناتی، نگران وزیر اعظم اور نگران وزرائے اعلیٰ کی نامزدگی کو شخصی اختیار سے نکال کر پارلیمان کے سپرد کر دیا۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ آئینی ترامیم سے عام آدمی کو کیا ملا۔ پاکستان صوبوں کی اکائیوں کا نام ہے، ان ترامیم سے پہلے تمام اختیارات اور وسائل وفاق میں مرکوز تھے۔[1]