اخوان الصفا ءدسویں صدی عیسوی میں مسلمان فلاسفہ کی ایک خفیہ جماعت جن کے افکار و نطریات کی بنیادی طور پر نوفلاطونیت پر مبنی ہیں۔ یہ جماعت خفیہ اس لیے تھی کہ اس زمانے میں بعض سیاسی مصلحتوں کی بنا پر فلسفیوں اور سائنسدانوں کو شبہے کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ خیال کیا جاتا تھا کہ علومِ عقلیہ یعنی فلسفہ، سائنس، ریاضی وغیرہ کا فروغ ملک و قوم کے لیے خطرے کا باعث ہو گا۔ چنانچہ فلسفی اور سائنس دان اپنے علمی مشاغل خفیہ طور پر جاری رکھنے پر مجبور ہوئے۔

اخوان الصفا ءکا پورا نام اخوان الصفاء و خلان الوفاء و اھل عدل و ابناء الحمد تھا۔ اس جماعت نے دار الخلافہ بغداد سے دور بصرے کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا[1]. اس جماعت کے ارکان کی مکمل فہرست کہیں نہیں ملتی۔ ارکان کے نام پوشیدہ رکھے جاتے . حیان التوحیدی نے 973ء میں ان میں سے چند کے نام ظاہر کر دیے۔ حیان اس دور کا ایک ممتاز فاضل تھا اور اخوان الصفا ءکے بعض ارکان کا دوست تھا۔ حیان نے جو نام بتائے ان میں المقدسی، ابو الحسن علی بن ہارون اور زید بن رفاعہ شامل ہیں۔

اخوان اصفا اہل علم کی جماعت تھی جس کا مقصد زیادہ تر عقلی علوم کا فروغ تھا۔ جماعت عمر کے لحاظ سے چار طبقات پر مشتمل تھی۔ پہلا طبقہ پندرہ سے تیس سال کے درمیان عمر کے نوجوانوں پر مشتمل تھا۔ دوسرے طبقے میں تیس سے چالیس سال کی عمر کے لوگ شامل تھے۔ چالیس سے پچاس کے افراد تیسرے طبقے میں اور پچاس سے زائد عمر کے اہل علم چوتھے طبقے میں شمار کیے جاتے تھے۔ اخوان کی مجلسیں عموما ًبارہ روز بعد منعقد ہوتی تھیں۔علمی مذاکرے ہوتے اور مختلف طبقوں کے افراد کو ان کی عمر اور استعداد کے لحاظ سے مطالعے اور تحقیق کا کام تفویض کیا جاتا۔ اخوان الصفاء کی خواہش تھی کہ مسلمان علوم عقلیہ کی طرف متوجہ ہوں اور عقلی علوم کی اس روایت سے روگردانی نہ کریں جسے قران نے قائم کیا تھا اور جسےالکندی ، فارابی اور ابن سینا نے پروان چڑھایا تھا۔

اخوان الصفا ءکی مفصل تعلیمات ان 52رسائل میں محفوظ ہیں جوابوسلیمان محمد اور ابوالحسن علی بن ہارون وغیرہ نے تحریر کیے تھے۔ ان رسائل کو دنیا کی سب سے پہلی انسائیکلو پیڈیا ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ان رسائل میں اس دور کے بیشتر علوم اور ان کے اہم نظریات کا ذکر ہے۔ عوام کی سہولت کے لیے ارکانِ اخوان الصفا نے ان کا خلاصہ ایک جلد میں کیا اور اس کا نام الجامعہ رکھا۔ پھر اس جلد کا مزید خلاصہ ایک مختصر رسالے کی شکل میں کیا اور اس کا نام الجامعۃ الجامعہ رکھا۔ انسائیکلو پیڈیا کے رسائل میں اس دور تک کے تقریباً تمام علوم اور ان کے اہم نظریات کا ذکر ہے اور بعض مقامات پر طویل بحثیں ہیں۔ جن علوم اور موضوعات پر رسائلِ اخوان الصفا میں اہم معلومات اور مباحثے پیش کیے گئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں : ریاضی (علم الاعداد)، جیومیٹری، فلکیات، جغرافیہ، موسیقی، نظری اور عملی فنون، اخلاقیات، طبیعیات، حقیقتِ مادہ، شکل، حرکت، زمان و مکان، آسمان، معدنیات، حقیقتِ فطرت، نباتات، حیوانات، جسمِ انسانی، حواس، زندگی اور موت، لذت اور اذیت، لسانیات، مابعدالطبیعات، نفسیاتی عقلیت، دینیات، نفس، محبت، حیات بعد ممات، علت و معلول، ایمان، قانونِ ایزدی، نبوت، تشکیلِ کائنات اور جادو وغیرہ۔

رسائلِ اخوان الصفا کی رو سے علم کی تین قسمیں ہیں۔ ایک وہ علم ہے جو حواسِ خمسہ سے حاصل ہوتاہے۔ یہ علم ضروری ہے کیونکہ ہمیں اپنے گردوپیش کا علم اسی ذریعے سے حاصل ہوتا ہے۔ دوسرا علم وہ ہے جو عقل اور غور و فکر سے حاصل ہوتا ہے، لیکن اس کے لیے بھی ہمیں حواسِ خمسہ کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ تیسرا وہ علم ہے جو کسی عالم، بزرگ یا امام سے حاصل ہوتا ہے۔

اخوان الصفاء نے حیاتیاتی ارتقا ءکا نظریہ بھی پیش کیا۔ یعنی یہ کہ جمادات، نباتات، حیوانات اور انسان ارتقا کے تدریجی منازل ہیں۔ یہ نظریہ نیا نہیں تھا لیکن اخوان الصفا ءکے اس نظریے کی ایک جہت حیرت انگیز حد تک جدید ہے۔ وہ یہ کہ انھوں نے لکھا کہ ارتقا میں حیوانات کی آخری منزل اور انسان کی پہلی منزل ’’قرد‘‘ یعنی بندر ہے جو صورت اور عمل کے اعتبار سے انسان سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔ اخوان الصفا کے زمانے میں اور اس سے قبل عام طور پر یہی تصور تھا کہ جسمِ انسانی کا سب سے اہم حصہ دل ہے، لیکن اخوان الصفا نے نظریہ پیش کیا کہ سب سے اہم حصہ دماغ ہے کیونکہ احساسات، خیالات اور جذبات اور دیگر عوامل دراصل دماغ ہی سے ظہور میں آتے ہیں۔

ان کا عقیدہ تھا کہ کائنات کا مبدا ذات باری تعالٰی ہے۔ بعینٰہ تجلی "روشنی" کا مبدا سورج ہے۔ ذات باری کے بعد عقل، پھر روح اور روح کے بعد مادہ وجود میں آیا۔ جس سے کائنات، معدنیات، حیوانات اور انسان نے جنم لیا۔ اور اس طرح یہ عالم کون و مکاں ارتقائی عمل سے گذرا۔

یہ باون رسالے ہیں اور تیرپنواں رسالہ جس کا نام جامعہ ہے ، میں ان رسالوں کا خلاصہ ہے ۔ ان رسالوں کے خطی نسخے عرب اور برصغیر کے کتب خانوں میں ملتے ہیں۔ یہ رسالے مصر اور بمبئی میں چھپ چکے ہیں ۔ ان میں سے ایک رسالے جامعہ کا مولوی اکرام نے اردو ترجمہ کیا اور محمد فیض اللہ نے 1852ء میں کلکتہ میں اس ترجمہ کو چھاپا۔

مؤلفین ترمیم

ان رسالوں کے مؤلفین کے نام نہیں ملتے ہیں ۔ اس لیے لوگوں میں اختلاف ہے کہ یہ کس نے لکھے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے کہ یہ اس امام کا کلام ہے جو حضرت علی کی نسل سے ہیں ۔ بعض کا کہنا ہے کہ یہ متعزلیوں کی تصنیف ہیں ۔ مگر ابو ریحان توحیدی کا کہنا ہے کہ زید بن رفاعہ چوتھٰی صدی ہجری میں ایک عالم گذرا ہے ۔ یہ بصرہ میں رہا ہے جہاں اس نے مختلف فضلاءمثلاً ابو سفیان ، ابو الحسن ، ابو احمد الہرجانی ، العوفی وغیرہ سے مل کر ایک انجمن بنائی اور طے کیا کہ مثالی زندگی بسر کریں گے ۔ انھوں نے ایک مذہب ایجاد کیا جو ان کے مطابق اللہ کی قربت اور خشنوی کا باعث ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ شریعت کو جاہلوں نے ناپاک کر دیا ہے ، اسے فلسفہ ہی پاک کرسکتا ہے اور عربی دین اور یونانی دین مل جائیں تو کمال ہوگا ۔ انھوں نے یہ رسالے لکھے ۔ ابو ریحان توحیدی کا کہنا ہے کہ میں نے یہ رسالے دیکھے ہیں ۔ ان میں ہر فن پر لکھا ہے مگر یہ نہایت اختصار سے ہیں ۔ اس میں بیشتر خرافات ، کنایات اور اشارے ہیں ۔

آلوسی کی روایت ترمیم

آلوسی کا کہنا ہے کہ یہ رسائل قرامطہ کے مذہب پر مبنی ہیں اور تیسری صدی ہجری میں بنی بویہ کے دور میں لکھے گئے ۔ بعض لوگ انھیں حضرت جعفر صادق سے منسوب کرتے ہیں ۔ بعض کا خیال ہے کہ ان کا مولف قاسم الاندلسی مجریطی ہے ۔ ان رسالوں میں تصوف اور فلسفہ دونوں ملے ہوئے ہیں اور ان میں شیعت کی جھلک نظر آتی ہے ۔ آلوسی کے اس قول پر احمد زکی پاشاہ نے بحث کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ مجریطی کے نہیں ہو سکتے ہیں ۔ کیوں کے مجریطی کا کہنا ہے میں نے تمام مسائل کھول کر بیان کیے ہیں اخوان صفاء والے کہتے ہیں کہ ہم نے اختصار سے بیان کیے ہیں ۔

اسماعیلیہ کی روایت ترمیم

اسماعیلیوں کی روایت ہے یہ امام احمد بن عبد اللہ نے تصنیف کیے ہیں ۔ انھوں نے ان رسالوں میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ شریعت اور فلسفہ آپس میں متفق ہیں ۔ کیوں کہ خلیفہ مامون نے دین میں تفرقہ پیدا کر رہا تھا ۔ جب رسالے لکھ کر مسجدوں میں رکھوائے گئے تو مامون کو پتہ چل گیا کہ امام زندہ ہے تو وہ اپنے ارادے سے باز آیا ۔ یہی وجہ ہے کہ بمبئی میں شائع شدہ نسخے میں مؤلف کا نام الامام احمد بن عبد اللہ لکھا ہے ۔ لیکن ان رسالوں کا کسی اسماعیلی امام اور داعی نے حوالہ نہیں دیا ہے ۔ ممکن ہے ان رسالوں کو قرامطہ نے تصنیف کیے ہوں ۔

نفس مضمون ترمیم

ان رسالوں کو پڑھ کر تجسس بیدار ہوتا ہے مگر تسلی نہیں ہوتی ہے ۔ ان کی دلیلیں اور حجتیں واضح نہیں ہیں اور انھوں نے اپنے مقاصد کی طرف اشارہ تو کیا ہے لیکن واضح نہیں کیا ہے ۔ ان رسالوں میں دعویٰ کیا گیا کہ اہل خیر کا دور شروع ہونے والا ہے ۔ بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ ہم ظہور کا سال اور ماہ بتاسکتے ہی ۔ پرفیسر سانوا کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے یہ رسالے قرامطہ یا اسمٰعیلوں نے تصنیف کیے ہوں ۔ کیوں کہ ہر دور میں ایک امام کا ہونا، ان کی دعوت اور اس کے ارکان کا ذکر، دور کشف اور دور ستر کا ذکر یہ عقیدے اسمعیلیوں کے ہیں ۔
ان رسالوں میں کہا گیا ہے ہم اہل عدل ، اہل بیت اور رسول ، ہم علم خدا اور نبوت کے وارث ہیں۔ ہمارا جوہر سمادی ، ہمار عالم علوی ہے ۔ اس لیے ہم پر زمانے کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے ۔ ہم میں اور دوسرے انسانوں میں وہی فرق ہے جو حیوان ناطق اور حیوان غیر ناطق میں فرق ہے ۔ ہم دنیا میں امام برحق ہیں ۔ ہماری پیروی میں نجات ہے ، ہمارا ہر فرد خدا کی حجت ہے ، جو دنیا سے کبھی ختم نہیں ہوگا۔ہمارا مذہب دوسرے تمام مذہبوں سے اعلیٰ ہے ، ہم دشمنوں کے خوف سے مخفی ہو گئے ہیں اور ہم جلد ظاہر ہوں گے ، زمین کو انصاف اور عدل سے بھر دیں گے ۔ ان رسالوں ہم نے اپنے مقاصد پر روشنی ڈالی ہے ۔ ابو ریحان توحیدی نے یہ رسالے اپنے شیخ ابو سلمان سجستانی کو دیکھائے ۔ انھوں نے اس کا مطالعہ کیا اور کہا کہ ان لوگوں نے مشقت اٹھائی ، پانی کی تلاش میں گھومے مگر چشمے تک نہیں پہنچ سکے ۔ راگ الاپے مگر لے پیدا نہیں کرسکے ۔ ناممکنات کو وجود میں لانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئے ۔

پروفیسر وارث میر ترمیم

ہمارے بہت سے دانشوروں نے اس کی بڑی تعریفیں کیں ہیں اور اسے اولین انسائیکلو پیڈیا کا درجہ دیا ہے ۔ مثلاً پروفیسر وارث میر نے اس پر روز نامہ جنگ میں اس پر کئی کالم لکھے تھے ۔ مگر لگتا ہے انھوں نے اس کا مطالعہ نہیں کیا تھا ۔ جیسا کہ ان کا کہنا ہے کہ اس میں مختلف علوم و فنون پر بحث کی گئی ہے ۔ مگر اس میں ایسا کچھ نہیں ہے ۔ مستشرقین نے ان رسالوں پر بہت توجہ دی ہے ۔ ڈی بویر نے اپنی کتاب تاریخ فلسفہ اسلام میں ان رسائل پر تفصیلی بحث کی ہے ۔

ماخذ ترمیم

اخوان صفاء
تاریخ فاطمین مصر ۔ ڈاکٹر زاہد علی
اخوان صفاء ۔ پروفیسر وارث میر

حوالہ جات ترمیم

  1. Al-Fārūq?, I. R. (1960), "On the Ethics of the Brethren of Purity", The Muslim World, 50: 109–121.