مشرق اور مغرب کی کائنات میں سپر کلسٹروں میں سے ایک کلسٹر کی ذیلی کہکشاں ملکی وے اور نظام شمسی کا ایک روشن ستارہ سورج، شمس یا خورشید ہے۔جس کو انگریزی میں(Sun) کہتے ہیں۔جبکہ ملکی وے میں ایسے بے شمار سورج موجود ہے میں یہ کہکشاں ایک لاکھ نوری سال پر محیط ہے۔سورج نظام شمسی کے مرکز میں واقع ستارہ ہے۔ زمین، دیگر سیارے، سیارچے اور دوسرے اجسام سورج ہی کے گرد گردش کرتے ہیں۔ سورج کی حجم نظام شمسی کی کل کمیت کا تقریباً 99.86% ہے۔ [1]۔ سورج کا زمین سے اوسط فاصلہ تقریباً 14,95,98,000 کلومیٹر ہے اور اس کی روشنی کو زمین تک پہنچنے میں 8 منٹ 19 سیکنڈ لگتے ہیں۔ تاہم یہ فاصلہ سال بھر یکساں نہیں رہتا۔ 3 جنوری کو یہ فاصلہ سب سے کم تقریباً 14,71,00,000 کلومیٹر اور 4 جولائی کو سب سے زیادہ تقریباً 15,21,00,000 کلومیٹر ہوتا ہے۔ دھوپ کی شکل میں سورج سے آنے والی توانائی ضیائی تالیف کے ذریعے زمین پر تمام حیات کو خوراک فراہم کرتی ہے[2]

علامت خورشید, ☉

اور زمین پر موسموں کی تشکیل کا باعث بنتی ہے۔

سورج

بناوٹ

ترمیم

سورج کی سطح بنیادی طور پر ہائیڈروجن اور ہیلیم سے بنی ہے۔ اس میں ہائیڈروجن کا تناسب تقریباً 74% بلحاظ کمیت یا 92% بلحاظ حجم اور ہیلیم کا تناسب تقریباً %24 بلحاظ کمیت یا %7 بلحاظ حجم ہے[3]۔ اس کے علاوہ دوسرے عناصر جیسے لوہا، نکل، آکسیجن، سیلیکان، سلفر، میگنیشیم، کاربن، نیون، کیلشیم اور کرومیم معمولی مقدار میں موجود ہیں[3]۔

خصوصیات

ترمیم

نجمی جماعت بندی میں سورج کا درجہ G2V ہے۔ G2 کا مطلب ہے کہ اس کی سطح کا درجہ حرارت تقریباً 5,780 کیلون (5,510 درجہ صد) ہے۔ سورج کا رنگ سفید ہے جو بالائی فضاء میں روشنی کے انتشار کے باعث زمین سے اکثر زردی مائل نظر آتا ہے۔ یہ روشنی کی کچھ طول موجوں کو منہا کرنے والا اثر ہے جس کے تحت روشنی میں سے چھوٹی طول موجیں، جن میں نیلی اور بنفشی روشنی شامل ہیں، نکل جاتی ہیں۔ باقی ماندہ طول موجیں انسانی آنکھ کو زردی مائل دکھائی دیتی ہیں۔ آسمان کا نیلا رنگ اسی الگ ہونے والی نیلی روشنی کے باعث ہے۔ سورج نکلتے یا ڈوبتے وقت جب سورج آسمان پر نیچا ہوتا ہے، تو روشنی کو ہم تک پہنچنے کے لیے اور بھی زیادہ ہوا میں سے گذرنا پڑتا ہے جس کے باعث یہ اثر اور زیادہ شدید ہو جاتا ہے اور سورج ہمیں نارنجی اور کبھی سرخ تک نظر آتا ہے[4]۔ سورج کے طیف میں سادہ اور تائین شدہ دھاتوں کی لکیریں پائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہیلیئم اور ہائیڈروجن کی کمزور لکیریں بھی موجود ہیں۔ اس کی درجہ بندی میں V اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ ستاروں کی اکثریت کی طرح سورج بھی ایک main sequence ستارہ ہے۔ یہ ستارے اپنی زیادہ تر توانائی ہائیڈروجن کے نویاتی ائتلاف (فیوزن) سے پیدا کرتے ہیں جس سے ہیلیم کے نویے (مرکزے) پیدا ہوتے ہیں۔ ہماری کہکشاں میں G2 جماعت کے تقریباً 10 کروڑ ستارے ہیں۔ سورج کو پہلے ایک چھوٹا اور غیر اہم ستارہ سمجھا جاتا تھا، لیکن اب یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ سورج ہمارے کہکشاں جادہ شیر کے 85% ستاروں سے، جن میں بیشتر سرخ بونے ہیں، زیادہ روشن ہے[5][6]۔

سورج کہکشاں جادہ شیر کے مرکز کے گرد تقریباً 2400026000 نوری سال کے فاصلے پر گردش کرتا ہے۔ یہ Cygnus جھرمٹ کی سمت میں گردش کر رہا ہے اور 22.5–25.0 کروڑ سالوں میں ایک چکر مکمل کرتا ہے۔ اس دورانیے کو ایک کہکشائی سال کہتے ہیں۔ اس کی دوری رفتار (orbital speed) تقریباً 220±20 [[کلومیٹر فی سیکنڈ]] خیال کی جاتی تھی لیکن ایک نئے اندازے کے مطابق 251 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے[7]۔ اس طرح سورج تقریباً ہر 1190 سالوں میں ایک نوری سال یا ہر 7 دنوں میں ایک فلکیاتی اکائی (astronomical unit) کا فاصلہ طے کرتا ہے۔ ہمارے موجودہ علم کے مطابق یہ پیمائشیں ہر ممکن حد تک درست ہیں لیکن مزید تحقیق کی بنیاد پر ان میں تبدیلیاں بھی آسکتی ہیں[8]۔ ہماری کہکشاں بھی cosmic microwave background radiation یا (CMB) کے مقابل 550 کلومیٹر فی سیکنڈ کی سمتار سے جھرمٹ Hydra کی سمت میں حرکت کر رہی ہے۔ اس کو ملا کر (CMB) کے مقابل سورج کی کل سمتار تقریباً 370 km/s جھرمٹ Crater یا Leo کی جانب ہے[9]

سورج ابھی جادہ شیر کے جس حصے سے گذر رہا ہے اس میں ہم سے قریب ترین 50 ستاروں میں، جو زمین سے 17 نوری سال (1.6E+14 کلومیٹر) کے فاصلے تک واقع ہیں، کمیت کے لحاظ سے اس کا نمبر چوتھا ہے[10]۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دنیا کو سورج کی سطح پر غیر معمولی سکون یا ٹھہراؤ کا سامنا ہے یا آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ سورج ابھی سو رہا ہے۔

سائنسدانوں کے لیے یہ صورت حال انتہائی حیران کن ہے اور وہ جاننے کی کوشش میں ہیں کہ سورج پر آنے والے شمسی طوفانوں میں کمی کے دنیا پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

ماضی کے تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب کبھی بھی سورج پر شمسی طوفان آنا بند یا کم ہو جاتے تھے تو دنیا سردی کی لپیٹ (ice age) میں آ جاتی تھی۔

اس مرتبہ سورج کی سطح پر شمسی طوفانوں میں کمی کا زمین کی سطح یا ’گلوبل وارمنگ‘ پر کیا اثر ہو گا اس کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔

بی بی سی کی سائنس کی نامہ نگار ربیکا مورل نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ’شمالی روشنیاں‘ دنیا اور سورج کے درمیان انتہائی قریبی تعلق کی یادہانی کراتی رہتی ہیں۔

سورج کی شعائیں یا جنھیں ’سولر ونڈز‘ بھی کہا جاتا ہے جب زمین کے اردگرد کے ماحول سے ٹکراتی ہیں تو شمالی روشنایاں یا ’آرورا بوریالِس‘ بنتا ہے۔

لیکن خدشہ ہے کہ جلد ہی یہ دلکش اور حیرت انگیز مناظر نظر آنا بند ہو جائیں گے۔

یہ سب کچھ سورج کی سطح پر آنے والے تغیرات کی وجہ سے ہو رہا ہے اور اس کی سطح پر شمسی طوفان تیزی سے تھم رہے ہیں۔

ردر فورڈ اپلیٹن لیباٹری کے پروفیسر رچرڈ ہیرسن کا کہنا ہے کہ آپ جو کچھ بھی کر لیں ’سولر پیکس‘ میں کمی واقع ہو رہی ہے اور سورج کی سطح پر بلند ہونے والے شعلوں کی کمی سے یہ بات بالکل واضح ہے۔

شمالی روشنیوں کا منظر بڑا دلکش ہوتا ہے

یونیورسٹی کالج آف لندن کی ڈاکٹر لوسی گرین نے اس صورت حال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ شمسی طوفانوں کے دورانیوں میں کمی ہو رہی ہے اور اس کا مطلب ہے سورج کی سطح پر جو ارتعاش ہے وہ بھی کم ہو رہا۔

سورج پر ہونے والی حرکت یا ایک مستقل طوفان کی سی کیفیت کی بہت مختلف نوعیتیں ہوتی ہیں۔ سورج پر پائے جانے والے دھبے بہت زیادہ مقناطیسیت کے حامل ہوتے ہیں جو زمین سے دیکھیں تو سیاہ دھبوں کی صورت میں نظر آتے ہیں۔

سورج کی شعائیں یا بنفشی شعاعیں زمین کی طرف منعکس ہوتی ہیں اور سورج کی سطح سے اٹھنے والے شعلے اربوں ٹن ’چارج پارٹیکلز‘ (یا برقی ذرات) خلاء میں بکھیر دیتے ہیں۔

سورج پر ہونے والا یہ ارتعاش ہر گیارہ برس میں کم اور زیادہ ہوتا ہے۔ یہ سورج پر ارتعاش کی انتہا یا عروج کا زمانہ ہے جسے سائنسی اصطلاح میں ’سولر میکسیمم‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن اس وقت سورج پر غیر معمولی ٹھراؤ ہے اور وہ سرگرمی نہیں ہے جو عام طور پر ہونی چاہیے تھی۔

پروفیسر رچرڈ ہیرسن نے جو تیس سال سے سولر سائنس دان ہیں بتایا کہ انھوں نے اپنی زندگی میں ایسی صورت حال یا سورج کی سطح پر ٹھہراؤ نہیں دیکھا۔ اگر آپ ماضی پر نظر ڈالیں تو سو سال قبل اس طرح کی صورت حال پیش آئی تھی۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان سے پہلی کی دو چار نسلوں نے اس طرح کی صورت حال نہیں دیکھی ہو گی۔

سورج کی سطح پر دھبوں کی تعداد سائنسدانوں کی توقعات سے انتہائی کم ہے اور سورج کی سطح پر بلند ہونے والے شعلے متوقع تعداد سے آدھے ہیں۔

پروفیسر رچرڈ کا کہنا ہے کہ سترہویں صدی میں کئی دہائیوں تک سورج کی سطح پر پیدا ہونے والے دھبے غائب ہو گئے تھے جس کی وجہ سے کرۂ شمالی میں شدید سردی ہو گئی تھی اور لندن کا دریائے ٹیمز منجمد ہو گیا تھا۔

ربیکا مورل کے مطابق ست رہیوں کے اس دور کی پیٹنگز سے پتہ چلتا ہے کہ منجمد دریائے ٹیمز پر ’سرمائی بازار‘ لگا کرتے ہیں۔ سنہ سولہ سو چوراسی کے معروف ’گریٹ فروسٹ‘ میں دریا دو ماہ تک مسلسل منجمد رہا تھا اور اس پر ایک فٹ دبیز برف کی تہ جمی رہی تھی۔

یورپ کی تاریخ کے اس سرد ترین دور کو ’مونڈر منیمیم‘ کا نام اس سائنس دان کے نام پر دیا گیا تھا جس نے سورج پر ہونے والی سرگرمی میں کمی کا مشاہدہ کیا تھا۔

مونڈر منیمیم کے دوران صرف دریائے ٹیمز ہی منجمد نہیں ہو گیا تھا بلکہ بحیرہ بالٹک بھی جم گیا تھا۔ شمالی یورپ میں فصلیں تباہ ہونے لگی تھی اور قحط آنا شروع ہو گئے تھے۔

سورج پر سرگرمی میں کمی کا مطلب ہے آنے والی کئی دہائیوں میں زمین انتہائی سرد ہو سکتی ہے۔

ڈاکٹر لوسی گرین نے بتایا کہ سنہ 1609ء کے بعد سے مستقل سورج کے دھبوں یا اس پر اٹھنے والے شعلوں کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے اور دنیا کے پاس چار سو سال کے مشاہدات کا ذخیرہ موجود ہے۔

برف کی تہ میں دفن ذرات سے ماضی کے کئی دریچے کھلے ہیں

انھوں نے مزید کہا کہ سورج کی اس وقت کیفیت اُس ہی قسم کی ہے جو مونڈرم مینیمم آنے سے پہلے تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ سورج پر سرگرمی آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہے۔

ڈاکٹر لوسی گرین اس بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتیں کہ اس صورت حال کا زمین کے موسم پر کس قسم کا اثر پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت پیچیدہ معاملہ ہے۔ انھوں نے کہا سورج سے آنے والے شعائیں جن میں مختلف قسم کی شعائیں ہوتی ہیں ان کا زمین کے اردگر کے ماحول پر کیا اثر پڑتا ہے سائنس ابھی اس کا پوری طرح ادراک نہیں کرسکی ہے۔

کچھ سائنس دان تحقیق کی جستجو میں کئی ہزار سال پیچھے چلے گئے ہیں اور انھوں نے برف کی تہ میں دبے ایسے ذرات کا مشاہدہ کیا ہے جو کبھی زمین کی فضا میں پائے جاتے تھے۔ ان ذرات سے سورج پر ہونے والی سرگرمی کے اتار چڑھاو کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

ایک اور سائنس دان مائک لویکورتھ جنھوں نے اس کا مشاہدہ کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ دس ہزار سال میں پہلی مرتبہ سورج کی سرگرمی میں اتنی تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ برف کی تہ اور سورج پر سرگرمی میں واقع ہونے والی کمی کا مشاہدہ کیا جائے تو بیس سے تیس فیصد تک اس بات کا امکان موجود ہے کہ آئندہ چالیس برس میں دنیا مونڈر مینیمم کے حالات کا شکار ہو جائے گی۔

سورج پر سرگرمی میں کمی کا مطلب ہے کہ سورج سے دنیا پر آنے والی بنفشی شعاعوں میں کمی اور اس وجہ سے ’جیٹ سٹریم‘ متاثر ہو سکتی ہے۔

مائک لویکورتھ کا کہنا ہے کہ جیٹ اسٹریم میں تبدیلی سے شمالی یورپ کو آنے والی گرم ہوائیں بند ہو سکتی ہیں۔ سورج کی سطح کی گرمی تب تک ختم نہیں ہو گی جب تک سورج ایک گیند جتنا چھوٹا نہیں ہو جاتا اور اس کی ساری ہائڈروجن ختم نہیں ہو جاتی۔[11]

روابط

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. M. Woolfson (2000)۔ "The origin and evolution of the solar system"۔ Astronomy & Geophysics۔ 41: 1.12۔ ISSN 1366-8781۔ doi:10.1046/j.1468-4004.2000.00012.x 
  2. A. Simon (2001)۔ The real science behind the X-files : microbes, meteorites, and mutants۔ Simon & Schuster۔ صفحہ: 25–27۔ ISBN 0684856182۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 جولا‎ئی 2009 
  3. ^ ا ب S. Basu، H.M. Antia (2008)۔ "Helioseismology and Solar Abundances"۔ Physics Reports۔ 457 (5–6): 217۔ doi:10.1016/j.physrep.2007.12.002۔ آرکائیو (سائنس):0711.4590 
  4. "Why is the sky blue?"۔ Science Made Simple۔ 1997۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 ستمبر 2008 
  5. K. Than (2006)۔ "Astronomers Had it Wrong: Most Stars are Single"۔ Space.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اگست 2007 
  6. C.J. Lada (2006)۔ "Stellar multiplicity and the initial mass function: Most stars are single"۔ Astrophysical Journal۔ 640 (1): L63–L66۔ Bibcode:2006ApJ...640L..63L۔ doi:10.1086/503158 
  7. K. Croswell (2008)۔ "Milky Way keeps tight grip on its neighbor"۔ New Scientist (2669): 8۔ 17 ستمبر 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 جولا‎ئی 2009 
  8. F.J. Kerr، D. Lynden-Bell (1986)۔ "Review of galactic constants" (PDF)۔ Monthly Notices of the Royal Astronomical Society۔ 221: 1023–1038۔ Bibcode:1986MNRAS.221.1023K 
  9. A. Kogut; et al. (1993)۔ "Dipole Anisotropy in the COBE Differential Microwave Radiometers First-Year Sky Maps"۔ Astrophysical Journal۔ 419: 1۔ Bibcode:1993ApJ...419....1K۔ doi:10.1086/173453  Cite uses deprecated parameter |coauthors= (معاونت)
  10. F. Adams; Laughlin, G.; Graves, G.J. M. (2004)۔ "Red Dwarfs and the End of the Main Sequence"۔ RevMexAA۔ 22: 46–49  Cite uses deprecated parameter |coauthors= (معاونت)
  11. "Solar System" 

مزید پڑھیے

ترمیم
  • M.J. Thompson (2004)۔ "Solar interior: Helioseismology and the Sun's interior"۔ Astronomy and Geophysics۔ 45 (4): 21–25 

بیرونی روابط

ترمیم

سانچہ:Sun spacecraft