ادائیگی کا وعدہ(Promise to pay) ایک کتاب کا نام ہے جو انگریزی زبان میں تھی۔ اسے رابرٹ میک نیئر ولسن نے لکھا تھا۔ اس کتاب میں اس نے بینکنگ کے راز نہایت سادہ زبان میں بیان کیے ہیں۔ کتاب ایک بینکار کی کہانی کے انداز میں لکھی گئی ہے۔
یہ کتاب 1934ء میں چھپی تھی۔ اگلے سال تباہ حال جرمنی نے اپنی کاغذی کرنسی کا کنٹرول بینکوں سے واپس لے کر خود اپنی کرنسی چھاپنی شروع کی۔ اس کے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے اور جرمنی نہایت تیزی سے ترقی کرنے لگا۔
یہ کتاب اگرچہ اس وقت چھپی تھی جب عوام کے لیے گولڈ اسٹینڈرڈ ٹوٹ چکا تھا مگر اس وقت بھی بین الاقوامی تجارت میں سونا استعمال ہوتا تھا۔

کتاب کا خلاصہ ترمیم

کسی زمانے میں انگلستان کے کسی چھوٹے شہر میں ایک شخص رہتا تھا جس نے اپنی گذر اوقات کے لیے ایک بہت بڑی تجوری بنوا رکھی تھی اور محافظوں کا بھی انتظام کیا تھا۔ شہر کے لوگ چور ڈاکوں کے ہاتھوں لُٹ جانے کے ڈر سے اپنا سونا چاندی تجوری کے مالک کے حوالے کر دیتے تھے۔ تجوری کا مالک جب بھی کسی آدمی کا سونا چاندی اپنے پاس امانت رکھتا تھا تو اپنے گاہک کو اپنی دستخط شدہ ایک رسید (نوٹ) جاری کرتا تھا جسے اس زمانے میں IOU کہتے تھے جس کا مطلب بنتا تھا I owe you (میں تمھارا مقروض ہوں) اور اپنے کھاتے میں اندراج کر لیتا۔ جب کوئی گاہک کچھ عرصہ بعد اپنا سونا واپس لینے آتا تو وہی رسید پیش کرتا۔ تجوری کا مالک اپنے کھاتے میں اندراج کرتے ہوئے گاہک کی رقم اس کے حوالے کر دیتا اور رسید واپس لے کر ضائع کر دیتا۔ رقم کی حفاظت کے عوض تجوری کا مالک اپنے گاہک سے فیس وصول کیا کرتا تھا۔ (پرنٹنگ پریس درحقیقت ایک سنار Johannes Gutenberg نے 1440ء میں جرمنی میں ایجاد کیا تھا)

تجوری کے مالک نے یہ مشاہدہ کیا کہ کبھی کبھی اجنبی لوگ بھی اس کی جاری شدہ رسید لے کر آتے اور رقم کا تقاضا کرتے کیونکہ انھوں نے اس رسید کے عوض کوئی چیز رسید کے اصل مالک کو بیچی تھی۔ تجوری کا مالک انھیں یہ رقم ادا کر دیتا۔ تجوری کے مالک کو جلد ہی یہ احساس ہو گیا کہ اس کی جاری کردہ رسیدیں مارکیٹ میں حکومتی کرنسی کی طرح قبول کی جا رہی ہیں کیونکہ سونے چاندی کے برعکس کاغذی رسید کی نقل و حمل آسان اور مخفی ہوتی ہے۔ اور لوگوں کو پورا اعتماد تھا کہ رسید کے عوض جب چاہیں سونا چاندی تجوری کے مالک سے وصول کر سکتے ہیں۔ لیکن تجوری کے مالک کو حیرت اس بات پر ہوتی تھی کہ امانت شدہ سونے کا 90 فیصد ہمیشہ تجوری میں ہی موجود رہتا تھا۔ زیادہ سے زیادہ صرف 10 فیصد سونے کی روزانہ لین دین ہوا کرتی تھی۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ نکلتا تھا کہ اگر وہ مزید نو گنا رسیدیں جاری کر دے تو کسی کو بھی پتہ نہیں چلے گا اور وہ بے حد امیر ہو جائیگا۔

فریکشنل ریزرو بینکنگ ترمیم

اب تک تجوری کا مالک قرضے جاری نہیں کرتا تھا لیکن اب اس نے قرضے جاری کرنے شروع کر دیے کیونکہ اسے سونا چاندی بطور قرض نہیں دینا پڑتا تھا بلکہ صرف اپنی دستخط شدہ رسیدیں قرض دینی تھیں۔ اور جب کسی نے بھی کوئی شک نہیں کیا تو رفتہ رفتہ قرضے اپنی انتہائی حد تک پہنچ گئے یعنی 9 گنا تک۔ ہر قرض لینے والا قرض کی ضمانت کے طور پر اپنے گھر کے کاغذات یا ایسی ہی کوئی چیز تجوری کے مالک کے پاس گروی (رہن) رکھتا تھا۔ تجوری کا مالک اب بینکر میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اسے اپنے جاری کردہ قرضوں پر 5 فیصد سود بھی ملتا تھا حالانکہ قرض پہ دی جانے والی یہ ساری رقم حقیقی نہیں بلکہ فرضی تھی۔ اس طرح فریکشنل ریزرو بینکنگ کا آغاز ہوا۔ بینکر بننے سے اس کی آمدنی میں بڑی تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔

جب بینکر اپنے پاس جمع شدہ سونے چاندی سے نو گنا زیادہ مالیت کے قرضے جاری کر چکا تو اس کی تجوری تقریباً خالی رہنے لگی اور اسے ڈر لگنے لگا کہ اگر کسی دن وہ اپنی جاری کردہ کسی رسید کے عوض سونا واپس نہیں دے سکا تو اس کی ساکھ بُری طرح مجروح ہو گی اور بے شمار لوگ اس سے رسید کے بدلے سونے کا تقاضا کریں گے جسے اب وہ پورا نہیں کر سکتا۔ اگر کبھی ایسا ہوا تو اس کا بزنس ہمیشہ کے لیے ڈوب جائے گا۔

بینکر نے فیصلہ کیا کہ اب وہ مزید قرضے جاری نہیں کرے گا۔ جب بینکر نے قرضے جاری کرنے شروع کیے تھے تو اس کے شہر میں بڑی خوش حالی آ گئی تھی۔ لوگوں کے ہاتھ میں زیادہ رقم دستیاب ہونے کی وجہ سے اشیاء کی طلب بڑھ گئی تھی اور قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا جس سے سامان بنانے والوں کی آمدنی بڑھ گئی تھی۔ پیداواری طبقوں نے قرض لے کر پیداوار بڑھانے کے اقدامات شروع کیے تھے جس سے مزید لوگوں کو روزگار ملا تھا۔ جیسے ہی بینکر نے مزید قرض دینے سے انکار کیا، شہر کی معیشت بگڑنے لگی۔ بینکر کی زیر گردش رسیدوں کی کمی کی وجہ سے قیمتیں بڑھنا بند ہو گئیں۔ جن تاجروں نے زیادہ قیمت کی امید پر سرمائیہ کاری کی تھی انھیں اب منافع کی کوئی امید نہ رہی تھی۔ خود بینکر کو بھی یہ ڈر لگنے لگا تھا کہ اگر قیمتیں بہت گر گئیں تو وہ سارے گروی شدہ اثاثے بیچ کر بھی اپنی جاری شدہ رسیدوں کے برابر رقم شائید حاصل نہ کر سکے گا۔ اسے شدت سے احساس ہوا کہ اُسے اپنی جاری شدہ رسیدوں کو کم کرنا پڑے گا۔ یعنی اپنے قرض داروں کو مجبور کرنا پڑے گا کہ وہ وقت سے پہلے ہی قرضہ رسیدوں کی شکل میں بینکر کو واپس کر دیں۔

بینکر نے اپنے بہت سارے قرض داروں سے اپنی رسیدیں واپس وصول کر کے ضائع کر دیں۔ اب مارکیٹ میں اس کی رسیدوں کی تعداد دس گنا سے کم ہو کر صرف پانچ گنا رہ گئی تھی اور بینکر اب پہلے سے کم خطرے میں تھا۔ لیکن حیران کن بات یہ تھی کہ بینکر کی آمدنی آدھی نہیں ہوئی تھی۔ جب کسی کا قرضہ میعاد مکمل ہونے پر بینکر کو واپس مل جاتا تھا تو اب بینکر اسے کسی دوسرے کو زیادہ شرح سود پر قرض دے دیا کرتا تھا۔ شہر کی معاشی صورت حال تیزی سے گر رہی تھی کیونکہ شہریوں کی قوت خرید آدھی ہو چکی تھی لیکن وہ اس کی وجہ سے ناواقف تھے۔ زیر گردش رسیدیں (نوٹ) آدھے رہ جانے کی وجہ سے قیمتیں گر رہی تھیں، تنخواہیں گر رہی تھیں، بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا تھا اور آئے دن بزنس کنگال ہو رہے تھے۔ قرض کے معاہدے کے تحت ان کی گروی شدہ جائداد کا مالک اب بینکر تھا۔ بینکر اب شہر کا امیر ترین شخص بن چکا تھا۔

کریڈٹ سائیکل ترمیم

بینکر اب یہ راز دریافت کر چکا تھا کہ زیادہ قرضے جاری کرنے سے بھی اس کی آمدنی بڑھتی ہے اور کم قرضے دینے سے بھی اسے منافع ہوتا ہے۔ یعنی وہ کریڈٹ سائیکل (بزنس سائیکل) کا راز سمجھ چکا تھا۔ جب وہ قرضوں کی فراہمی بڑھاتا تھا تو قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے اسے خریداروں کی طرف سے منافع ہوتا تھا۔ اور جب وہ قرضوں کی مقدار کم کرتا تھا تو اسے دوکانداروں کی جانب سے نفع ہوتا تھا۔ اسے سمجھ میں آ گیا تھا کہ مارکیٹ میں قیمتیں اب وہ خود کنٹرول کر سکتا ہے۔ اس طرح اسے معاشرے پر کسی حد تک کنٹرول حاصل ہو چکا ہے۔

بینکنگ کی ترقی ترمیم

بہت جلد اس کی دیکھا دیکھی ملک کے دوسرے بڑے تجوری مالکان نے بھی اپنے اپنے علاقوں میں یہی کام شروع کر دیا۔ اور اس کے بعد دار الحکومت میں کسی بینکر نے یہی کام شروع تو کیا مگر اپنے ملک کی بجائے دوسرے ممالک کے تاجروں سے۔ اس بین الاقوامی بینکر کے قرضوں کی طلب اس وقت بڑھتی تھی جب اس کا اپنا ملک بہت ایکسپورٹ کر رہا ہوتا تھا۔ اس کے برعکس جب ایکسپورٹ گرتی تھی تو اس کے قرضوں کی طلب اور اس کا منافع بھی گرتا تھا۔ یعنی جب ملکی بینکر زیادہ قرضے جاری کرتے تھے اور ملک میں طلب بڑھتی تھی تو ایکسپورٹ میں کمی آنے کی وجہ سے اس بین الاقوامی بینکر کے قرضوں کی طلب کم ہو جاتی تھی۔ یہ واضح تھا کہ ملکی اور بین الاقوامی بینکروں کے مفادات ایک دوسرے کے مخالف تھے۔ چونکہ جھگڑے کی شکل میں دونوں کا نقصان تھا س لیے انھوں نے باہمی بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی۔ بین الاقوامی بینکر نے تجویز پیش کری کہ ملکی بینکر اپنے سارے IOU اپنے ہی ملک میں قرض دینے کی بجائے کچھ IOU بین الاقوامی بینکر کو چھوٹی مدت کے لیے قرض دے دیا کریں۔ مدت چھوٹی ہونے کی وجہ سے ملکی بینکاروں کو کم خطرات سے دوچار ہونا پڑے گا۔ ملکی بینکرز جانتے تھے کہ کبھی کبھی جب کیش (سونے) کی طلب اچانک بڑھ جاتی ہے تو وہ مشکل صورت حال سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ انھیں اس پیشکش میں فائیدہ نظر آیا۔ انھوں نے سوچا کہ جب ملک میں طلب زیادہ ہو گی تو وہ زیادہ IOU اپنے ہی ملکی عوام کو دیں گے اور تھوڑے سے بین الاقوامی بینکر کو۔ اور جب ملک میں طلب کم ہو گی تو اشیاء تجارت ایکسپورٹ کی منتطر ہوں گی۔ ایسے وقت وہ بین الاقوامی بینکار کو قرضے بڑھا دیں گے جسے اس وقت زیادہ رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ سارے بینکار اس پلان پر متفق ہو گئے۔
ہمارا اصل بینکار اب پریشانیوں سے آزاد تھا۔ اس نے سوچا کہ کیوں نہ اس کے شہر کے گرد ریلوے لائن بچھانے کے لیے قرضے جاری کیے جائیں۔ جب اس نے بڑی مقدار میں قرضے جاری کیے تو اس کے شہر میں اچانک خوش حالی آ گئی۔ اشیاء کی قیمتیں بڑھنے لگیں لیکن اس سے ایکسپوٹ گرنے لگی اور تجارتی توازن بگڑنے کی وجہ سے امپورٹ کرنے والے تاجروں پر دباو بڑھنے لگا کہ وہ سونے میں ادائیگی کریں۔ امپورٹرز نے بین الاقوامی بینکر سے سونے کا تقاضا شروع کر دیا جو اس کے پاس پورا نہ تھا۔ نتیجتاً اس نے اپنے قرض داروں سے رقم کی واپسی کا مطالبہ کر دیا اور نئے قرضے جاری کرنا بالکل بند کر دیے۔ اس کے نتیجے میں امپورٹ ایکسپورٹ بالکل ختم ہو گئی۔

کساد بازاری ترمیم

جو مال تجارت ایکسپورٹ کے لیے بنایا گیا تھا اب وہ ملکی منڈی میں بھیج دیا گیا جس کی وجہ سے قیمتیں بہت گر گئیں۔ ہمارے ملکی بینکر نے جو جائدادیں بطور رہن رکھی تھیں ان کی قیمت بھی بہت گر چکی تھی۔ زیر گردش رقم کی فراہمی کم کرنے کے لیے ملک بھر میں بینکر لوگوں سے اپنے قرضے قبل از وقت طلب کر رہے تھے۔ تاجروں پر ایک خوف طاری ہو چکا تھا۔ زیادہ لوگوں نے IOU کی بجائے سونا طلب کرنا شروع کر دیا تھا۔ ہمارے بینکار کے پاس سونا ختم ہو چکا تھا اور اسے اپنا مستقبل برباد ہوتا صاف نظر آ رہا تھا۔

لیکن تباہی کے اس دہانے پر اچانک حکومت نے قرضوں پر موراٹوریئم (قانونی مہلت) جاری کر دی کہ نیشنل بینک اب ایسے نوٹ جاری کرے گا جو سونے کے مساوی ہوں گے۔ اس سے نہ صرف ملکی بینکروں کو حکومت کی پشت پناہی حاصل ہوئی بلکہ قیمتیں بہت گرنے کی وجہ سے بین الاقوامی بینکر بھی فائیدے میں رہا کیونکہ ایکسپورٹ بڑھنے لگی اور اس کی آمدنی بھی۔ لیکن وہ ایک بدترین صورت حال سے بال بال بچا تھا۔ اس لیے اس نے سارے بینکروں کی ایک میٹنگ بلوائی اور بالکل صاف لفظوں میں بتایا کہ ملکی بینکروں کا ریلوے کے لیے اس طرح حد سے زیادہ قرضہ دینا ہم سارے بینکروں کے لیے انتہائی خطرناک صورت حال پیدا کرنے والا تھا۔ اس نے کہا کہ اگر ایسا دوبارہ ہوا تو حکومت ہم سے قرضے جاری کرنے کا حق واپس لے کر خود قرضے جاری کرنا شروع کر دے گی اور ہم تباہ ہو جائینگے۔ ہمیں ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے کہ ملکی معیشت میں کبھی اتنی ترقی نہ آئے کہ ایکسپورٹ تباہ ہو جائے۔ کوئی ایسا خود کار نظام ہونا چاہیے جو ایسی صورت حال کو دوبارہ آنے سے روکے۔ اور میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ آیندہ جب بھی سونا اس ملک سے باہر جائے تو اسی مالیت کے برابر نیشنل بینک کے نوٹ گردش سے نکال لیے جائیں۔ اس طرح ملک میں قوت خرید بھی اسی حد تک کم ہو جائے گی اور قیمتیں کم ہونے سے تیز بازاری قابو میں آئے گی۔

اس تجویز پر ملکی بینکر پریشان ہو گیا۔ اس نے اعتراض کیا کہ اس طرح تو ہم بالکل تمھارے رحم وکرم پر رہ جائینگے۔ ہمیں اپنے ملک میں قیمتیں انتہائی حد تک گرانی پڑیں گی۔ بین الاقوامی بینکر نے وضاحت کری کہ اگر قیمتوں اور تنخواہوں میں مسلسل کمی بیشی نہ ہوتی رہے تو لوگ اپنے پاوں پر خود کھڑے ہو جائینگے اور ہمارا قرض دینے کا بزنس ٹھپ ہو جائیگا۔ ہماری بقا کے لیے ضروری ہے کہ ہم بار بار اچھے اور برے حالات پیدا کرتے رہیں تاکہ قرض خواہ ہمارے پاس آتے رہیں۔ اگر حالات بہت خراب ہو جاتے ہیں تو حکومت یقیناً مداخلت کرے گی اور قیمتیں اور تنخواہیں مربوط کر دے گی۔ اس طرح ہم تباہ ہو جائینگے۔ ہمیں ہر حال میں حکومت کو ایسا کرنے سے روکنا ہے

بین الاقوامی کنٹرول ترمیم

ہم نے دیکھا کہ کس طرح بین الاقوامی بینکر نے قرضوں کی فراہمی کنٹرول کر کے ملک کی معیشت کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اگر حکومت اپنی کرنسی کی فراہمی کا مکمل کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھے تو ان بینکروں کا بزنس بالکل ٹھپ ہو جائے۔ بینکر سیاست دانوں کو ہمیشہ ڈرا کر رکھتے ہیں کہ ہمارے بغیر غیر ممالک سے تجارت ممکن نہیں۔

بینکر اچھی طرح جانتے تھے کہ قرضوں کی فراہمی بڑھا کر وہ قیمتیں اور تنخواہیں بڑھا سکتے ہیں اور قرضوں کی فراہمی گٹھا کر وہ قیمتیں اور تنخواہیں کم سکتے ہیں۔ اس طرح جب وہ کساد بازاری (depression/ slumps) نافذ کرتے ہیں تو قرض داروں کی رہن شدہ جائداد پر قبضہ کرتے ہیں جسے وہ اگلی تیز بازاری (boom) میں فروخت کر کے بہت منافع کما سکتے ہیں۔

بین الاقوامی بینکر کسی ملک کو کسی بڑے منصوبے (مثلاً ریلوے) کے لیے بڑی رقم قرض دیتے تھے جس سے ملک میں بڑی خوش حالی آ جاتی تھی۔ ملکی صنعتیں بھی ترقی کرتی تھیں اور رفتہ رفتہ قیمتیں بڑھنے لگتی تھیں۔ بین الاقوامی بینکر جانتے ہیں کہ اب اس ملک کی ایکسپورٹ گرنے والی ہے کیونکہ قیمتیں کافی بڑھ چکی ہیں۔ اس موقع پر وہ قرض کم کرنے کے لیے شرح سود بڑھا دیتے تھے۔ یہ ملکی بینکاروں کے لیے ایک سگنل ہوتا تھا کہ اب تم بھی قرضے دینا بند کرو اور شرح سود بڑھاو ورنہ جلد ہی تمھیں پہلے کی طرح سونے کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس طرح اُس ملک میں بھی قیمتیں کم ہونا شروع ہو جاتی تھیں۔

اگرچہ تاثر یہی دیا جاتا تھا کہ جدید بینکاری نظام انسانیت کی بہتری کر رہا ہے لیکن درحقیقت یہ صرف بینکروں کی بہتری کر رہا ہے۔ دنیا میں جہاں بھی بینکار پہنچے وہاں غربت اور قرض میں اضافہ ہوا۔

اقتباس ترمیم

  • یاد رہے کہ ہم قرض دینے والے ہیں، انسانیت کے دوست نہیں۔
We're money-lenders, remember, not philanthropists.
  • حکومت کو ہمارے معاملات میں ہرگز مداخلت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ حکومت کا کام ہمارے کام کا عین اُلٹ ہے۔
The reason why governments must never be allowed to interfere with our operations is that the interests of governments are nearly always opposed to our interests.
  • رقم قرض دینے کے بزنس (بینکنگ) کا ہدف یہ ہے قیمتیں گھٹتی بڑھتی رہیں تاکہ تنخواہیں بھی کم زیادہ ہوں۔ اگر کسی طرح سے قیمتیں اور تنخواہیں مستحکم ہو جائیں تو لوگ جلد ہی خود کفیل ہو جائیں گے اور قرضوں سے جان چھڑا لیں گے۔ اور اس طرح ہم قرض کا بزنس کرنے والے برباد ہو جائیں گے۔
"The sap and marrow of this business of money-lending," he declared, "is a moveable price-level and hence a moveable wage-level. You Home Bankers know perfectly well that if prices or wages were fixed or pegged in any way, if they were even moderately stable, you would soon be out of business.۔.۔. Very soon they would get out of debt."
  • قیمتیں اس وقت بڑھتی ہیں جب لوگوں کو رقم دی جاتی ہے۔ اور اس وقت گرتی ہیں جب رقم واپس لے لی جاتی ہے۔
Prices rise when people are given money to spend; they fall when the money is taken away.
  • اب یہ بالکل واضح ہے کہ اگر قرض کا کاروبار ختم ہو جائے تو ہم بھی ختم ہو جائیں گے۔۔۔قرض کے کاروبار کا اصل راز یہ ہے کہ قرض اس طرح دیا جائے کہ یہ اس وقت تک ادا نہ کیا جا سکے جب تک نیا قرضہ نہ لیا جائے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنی مرضی سے قیمتیں کم یا زیادہ کر سکیں۔
Now it is obvious that if money-lending comes to an end we come to an end with it. … The true secret of money-lending is to lend in such a way that the debt can never be repaid except by contracting a new debt. That can only be accomplished if the price-level remains free to rise or fall as we may determine.

مزید دیکھیے ترمیم

بیرونی ربط ترمیم